توانائی کے بحران نے پوری قوم کو نفسیاتی اور علامتی مریض بنا دیا ہے۔ رمضان المبارک میں ان کا یہ وعدہ تھا کہ لوڈ شیڈنگ بالکل نہیں ہو گی لیکن وقفے وقفے سے ہر شہر کے ہر علاقے میں لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا....
پچھلے ہفتے اخباری اطلاع کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے کالا باغ ڈیم کو التوا میں ڈالنے، ڈالے رکھنے اور مخالفت کرنے کا جواب اور جواز مانگ لیا ہے اور اس کی تاریخ7 اگست تک رکھی ہے۔ ایک محب وطن شہری کی طرف سے درخواست دائر کی گئی تھی کہ کالا باغ ڈیم ہی اگر لوڈ شیڈنگ کا حل ہے تو اس کی مخالفت کیوں اور کس بنا پر کی جا رہی ہے۔ جس پر جناب ڈپٹی اٹارنی جنرل کا حکم آ گیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے اپنے دلائل کو منطقی بناتے ہوئے تشریحات میں کہا کہ کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو قومی و بین الاقوامی ادارے قابل عمل قرار دے چکے ہیں۔ سروے ہو چکے ہیں۔ فزیبلٹی رپورٹ اور ابتدائی منصوبے کا کام پر اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اب یہ مشترکہ مفادات کونسل کا فرض ہے کہ اعتراضات اٹھانے والے صوبوں کے اعتراضات کا جائزہ لے اور اس منصوبے کو آگے بڑھائے۔
14 جون 2010ءمیں جب میں نے اس منصوبے کو نیشنل اسمبلی میں اٹھایا تھا اس وقت سے لے کر اب تک اس پر بحث ہوتی چلی آ رہی ہے اور اکثریت جن میں ماہرین بھی شامل ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ قابل عمل ہے اور باقی ڈیموں سے جلدی بن بھی سکتا ہے اور باقی ڈیموں کی ضروریات یہ اکیلا پوری کر سکتا ہے۔ جناب شمس الملک صاحب تو متعدد بار ٹیلی ویژن پر آ کر اس کی تفاصیل بیان کر چکے ہیں۔ یہ منصوبہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میںہی شروع ہو گیا تھا۔ صوبہ بلوچستان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے وہ اپنے بعض مفاد پرست دوستوں کے اکسانے پر ان کے ساتھ مل جاتا ہے.... کیونکہ وہ اس منصوبے کے نفع نقصان میں شامل ہی نہیں ہے۔ اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں بے شمار ماہرین اور انجینئرز ایسے موجود ہیں جو مشترکہ مفادات کی کونسل کی مدد کر سکتے ہیں بشرطیکہ کونسل اعتراضات کرنے والوں کو مذاکرات کی میز پر بلا لے۔ اگرچہ اعتراض کرنے والے فقط چند نفوس ہیں لیکن ان کو بلانا ہی کاردارد ہو گا۔ جنوبی پنجاب سے خصوصی طور پر اور دیگر علاقوں سے مجھے گاہے گاہے لوگ حقیقت حال سے باخبر کرتے رہتے ہیں۔
(قارئین! ایک حقیقت تو یہ ہے کہ ابھی جب میں کالم لکھ رہی تھی تو بجلی اچانک چلی گئی اور اندھیرا چھا گیا ہے۔ یہ اچانک دن میں کئی بار جاتی ہے۔ میں اس کو کتنی دیر برداشت کر سکتی ہوں اور میرے جیسے باقی لوگ کب تک.... درمیان میں، میں نے یہ لکھنا ضروری سمجھا:)
اب آئیے اصل موضوع کی طرف نیشنل اسمبلی میں جب بھی کالا باغ ڈیم کا سوال کسی طرف سے اٹھایا جاتا ہے صرف پختونخواہ کی ایک جماعت اور چند سندھی اسکی مخالفت کرتے ہیں۔ باقی لوگ اس کے حق میں نظرآتے ہیں۔
مشترکہ مفادات کی کونسل اگر خلوص نیت سے اس کام میں ہاتھ ڈالے تو وہ ان کے اعتراضات سن کر ان کی تشفی کرا سکتی ہے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ اس قصے کو ختم سمجھو، پوری قوم کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر رہا ہے.... کس کے اشارے پر، پاکستان کو بھوکا پیاسا مارا جا رہا ہے۔ AHP نے کہا تھا کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ خدا کی طرف سے جواب آ گیا اسی سال شدید سیلاب آیا جس میں سارا نوشہرہ اپنے آپ ڈوب گیا اگر کالا باغ ڈیم بنا ہوتا تو سارا پانی ادھر جاتا۔ جس وقت جنوبی پنجاب بپھری ہوئی لہروں کے اندر ڈوبتا جا رہا تھا جنوبی پنجاب کے سادہ لوح لوگوں نے رو رو کر مجھے فون کئے کہ خدا کے واسطے کالا باغ ڈیم بنوائیں۔ پانی کی عفریت کا رخ اس طرف موڑیں ہمارے کچے مکان اور پکی فصلیں تباہ ہونے سے بچا لیں۔
دوسرا مضحکہ خیز اعتراض یہ ہے کہ پنجاب پانی روک لے گا۔ اس کا جواب بھی ہے کہ آج تک چشمہ بیراج تونسہ بیراج اور چشمہ جہلم لنک میں رکاوٹ ڈال کر پانی روک سکتا تھا مگر پنجاب نے کبھی ایسا کیا ہے نہ کرے گا۔ اب بھی لوڈ شیڈنگ سے پنجاب زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ پنجاب کے اندر فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں جب بھی بجٹ آتا ہے۔ اس میں دو چار چھوٹے موٹے ڈیم شامل کر کے بلکتے لوگوں کا منہ بند کر دیا جاتا ہے۔ چند لوگوں نے اپنے کسی مفاد کی خاطر کالا باغ ڈیم کو ایشو بنا کے رکھا ہوا ہے۔
بھاشا ڈیم سے پہلے کالا باغ ڈیم کیوں ضروری ہے.... بھاشا کی تعمیر میں پہلی رکاوٹ سروس روڈ اور بڑی مشینری کے لئے بڑے پل بنانے پڑیں گے اور شاہراہ ریشم کو اوپر پہاڑوں پر150 کلومیٹر نئے سرے سے بنانا پڑے گا جوکہ خود بھاشا ڈیم جتنا خرچہ ہے۔ بھاشا ڈیم سے مین گرڈ میں بجلی لانے کیلئے350 کلو میٹر لائن پہاڑوں سے گزار کر لانی پڑے گی۔ جس کے اخراجات تقریباً کالا باغ ڈیم جتنے ہو جائیں گے جبکہ کالا باغ ڈیم سے ٹرانسمشن لائن مین گرڈ ماڑی انڈس 10 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ تیسری بات یہ کہ تربیلا سے نیچے بڑے ڈیم کی ضرورت ناگزیر ہے۔ تربیلا سے نیچے دریائے کابل دریائے سواں و دیگر ندی نالوں کا پانی صرف کالا باغ ڈیم سٹور کر سکتا ہے جو کہ سیلاب کے دنوں میں سمندر میں چلا جاتا ہے۔ تربیلا اور بھاشا میں پانی گلیشیئر کا آتا ہے جبکہ کالا باغ ڈیم میں دریائے سندھ کے علاوہ دیگر ذرائع بارش، برف و ندی نالوں کا اضافی پانی آئے گا۔
مزید یہ کہ تربیلا کی زندگی اور سلٹ کی نکاسی کےلئے پانی کے تیز اخراج کی ضرورت ہے تاکہ پانی بجلی بنا کر اگلے ڈیم میں چلا جائے چونکہ اب پانی کا اخراج سست روی سے ہوتا ہے۔ اس لئے سلٹ ڈیم کے اندر بیٹھتی جا رہی ہے۔ چھوٹے ڈیم بھی بنائیں مگر چھوٹے ڈیم بارش کے پانی پر آبپاشی کے لئے بنائے جاتے ہیں جو کہ محدود علاقوں کےلئے مخصوص ہوتے ہیں۔ بڑے ڈیم میں پانی دریاﺅں سے آتا ہے۔ 750 چھوٹے ڈیم ایک بڑے ڈیم یعنی کالا باغ ڈیم کے برابر ہوں گے پھر بھی اگر نوشہرہ کے ڈوبنے کا عذر پیش کیا جائے تو ان دنوں بآسانی ڈیم کے گیٹ کھول دیئے جائیں گے۔ ساری بحث کاغذ کے اس ٹکڑے پر نہیں ہو سکتی۔اب جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے یہ معاملہ نہایت درد مندی کے ساتھ مشترکہ مفادات کی کونسل کے سپرد کر دیا ہے۔ تو اسے اعتراض اٹھانے والے چند لوگوں کو پہلے بلانا چاہئے پھر اشتہار دے کر ملک کے کونے کونے سے ماہرین کو دعوت دی جائے وہ اپنی تجاویز لائیں۔ تب تک کے لئے میں نے جتنے لوگوں سے بات کی ہے اور جو نتیجہ اخذ کیا ہے مشترکہ مفادات کی کونسل کی خدمت میں پیش کر رہی ہوں۔
-1ایک واٹر پالیسی بنائی جائے۔
-2چاروں صوبوں کے لئے واٹر ریٹ الاﺅنس برابر کیاجائے۔
-3کالا باغ ڈیم اور مطلوبہ علاقے کو فیڈرل علاقہ اور فیڈرل منصوبہ ڈیکلیئر کیا جائے تاکہ اس میں سے صوبائی تعصب کا شاخسانہ نکل جائے ۔
آخر میں، تڑپتے اور بلکتے عوام سے میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آنے والے انتخابات میں آپ صرف اس پارٹی کو ووٹ دیں جس کے منشور میں باقی ڈیموں کے علاوہ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ شامل ہو اور مشترکہ مفادات کی کونسل الیکٹرانک میڈیا پر بات کرنے کےلئے ڈیم سیریز شروع کر دے۔ جس میں ہر پاکستانی کو بات کرنے کی اجازت ہو۔
اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر روک کر دو ہزار ارب کا جو نقصان قومی خزانے کو پہنچایا گیا ہے۔ وہ کس کے ایما پر ہوا ہے۔ براہ کرم مشترکہ مفادات کی کونسل اس کی انکوائری بھی کرائے۔