سرتاج عزیز اس وقت مشیرِ خارجہ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں لیکن سابقہ حکومتی دور میں وہ نواز شریف کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔
سابقہ دور حکومت میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کیلئے محمد نواز شریف کی فرمائش پر ہمایوں اختر نے برطانوی سرمایہ کاروں کے لیڈر گولڈ سمتھ کو لاہور مدعو کیا، یہاں آواری میں بڑے بڑے صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کیساتھ براہ راست ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کے اختتام پر میں نے گولڈ سمتھ سے پوچھا کہ ان کا دورہ¿ پاکستان کیسا رہا اور کیا وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرینگے۔ جواب میں گولڈ سمتھ نے جواب دیا کہ ”میری بہت سے سرمایہ کاروں سے ملاقات ہوئی ہے لیکن کسی ایک نے بھی کوئی ٹھوس منصوبہ پیش نہیں کیا ہے۔ صرف ایک ایسا آدمی ملا جو انتہائی قابل اور ٹو ڈی پوائنٹ بات کرنے والا ہے اور اس کا نام سرتاج عزیز ہے لیکن بدقسمتی سے اسکے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ اب یہ معمہ حل طلب ہے کہ وزیر خارجہ بنانے کیلئے موجودہ حکومت کو کوئی چہرہ کیوں نظر نہیں آ رہا اور اگر حکومت نے سرتاج عزیز کو صدر پاکستان کا انتخاب لڑانے اور صدر بنانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے تو پھر سرتاج عزیز کو پاکستان کا وزیر خارجہ بنانے میں کونسا امر مانع ہے؟ افغانستان کے تین روزہ اہم دورے سے پہلے اسلام آباد میں پاکستان کے دفترِ خارجہ میں محمد نواز شریف نے مشیر خارجہ سمیت دورہ کیا اور وہاں سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی اور انکے رفقا نے حکومتی عہدیداروں کو خارجہ پالیسی اور تعلقات کے بارے میں بھرپور بریفنگ دی۔ حنا ربانی کھر وزیر خارجہ کی حیثیت سے ایک ہی رٹ لگا رہی تھی کہ انڈیا کو پسندیدہ ملک کا درجہ دیا جائے ۔آخری دنوں میں تو بات تُو تُو میں میں تک آ پہنچی اور خوشی کی بات ہے کہ امین فہیم اس راہ میں دیوار بن گئے اور ہزاروں کوششوں کے باوجود حنا بھارت کو پاکستان کیلئے سب سے پسندیدہ ملک کا درجہ دلوانے میں ناکام رہیں۔
افغانستان میں مشیر خارجہ تے کابل میں صدر کرزئی کیساتھ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں بھی شرکت کی اور بالکل صاف لفظوں میں افغانستان کے بارے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم نکات بیان کرتے ہوئے کہا کہ 2014ءمیں افغانستان سے نیٹو اور ایساف فوجوں کے نکل جانے کے بعد افغانستان اپنے فیصلے خود کریگا اور پاکستان افغانستان کے کسی سیاسی دھڑے کی حمایت نہیں کریگا۔ طالبان کے ساتھ اگر معاہدہ کرنا ہے تو اس کیلئے سب کچھ افغانستان نے خود کرنا ہے کیونکہ طالبان پاکستان کے بس میں نہیں ہیں۔ ساتھ ہی سرتاج عزیز نے نام لئے بغیر کہہ دیا ہے کہ خطے کے دوسرے ممالک بھی افغانستان میں کسی قسم کی مداخلت نہ کریں۔
اب آخری بات پوری ہونی مشکل نظر آتی ہے۔ پاکستان کی محنت اور تعاون سے جب افغانستان میں امریکی آپریشن مکمل ہوا تو اس وقت پاکستان کو وہاں جا کر اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کی ضرورت تھی کیونکہ افغانستان کی سینکڑوں میل سرحد پاکستان سے ملتی ہے اور عالمی قوانین کیمطابق پاکستان نے افغانستان کو سمندر تک رسائی دے رکھی ہے تاکہ افغانستان اپنا مال سمندری راستے سے بھی منگوا سکے۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ انڈیا نے نئی قائم ہونیوالی حکومت کو اسکی ذاتی کمزوریوں کی وجہ سے قابو میں کر کے پاکستان کیخلاف افغانستان سے ایک ایک پروپیگنڈہ کا محاذ کھول دیا اور افغانستان کی تعمیر نو کیلئے ملنے والے پانچ ارب ڈالر میں سے پاکستان کے حصے میں صرف ایک ارب ڈالر آئے باقی رقم انڈین سرمایہ کاروں میں تقسیم کر دی گئی کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو میں منافع کمائیں۔ اب سرتاج عزیز کی نئی پالیسی قابل تعریف ہے کہ پاکستان افغانستان کے اندر مسائل اور خلفشار سے دور رہے گا لیکن حیرت ہے کہ مقررہ مدت ختم ہونے کے باوجود افغان پناہ گزینوں کو واپس افغانستان کیوں نہیں بھجوایا گیا انکی وجہ سے سے بے شمار مسائل کا سامنا ہے اور اب واپسی کی ڈیٹ میں توسیع سے مستقبل میں مزید سنگین مسائل پیدا ہو جائیں گے۔