صدارتی انتخابات 6اگست کو 27ویں رمضان المبارک کو کرانے کا الےکشن کمیشن آف پاکستان کا اعلامےہ، صدارتی الےکشن کیلئے 706ارکان پر مشتمل انتخابی کالج ہو گا۔ صدارتی الےکشن کے شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے صدارتی الےکشن کیلئے صف بندی شروع ہو گئی ہے۔الےکشن کمیشن آف پاکستان جو الےکشن رولز بناتا ہے اسکی صدر سے باقاعدہ منظوری لی جاتی ہے۔ ملک میں 1973ءکے آئین کے نفاذ کے بعد چوہدری فضل الہٰی پاکستان کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان کا انتخاب صرف قومی اسمبلی کے ارکان نے کیا تھا۔ کیونکہ 1973ءکے حقیقی آئین میں صدر کے انتخاب کیلئے اےک ہی الیکٹرول کالج تھا اور اس وقت سینٹ معرض وجود میں نہیںآئی تھی۔ سینٹ ایکٹ1974 میں منظور ہوا تھا چوہدری فضل الہٰی کے صدارتی انتخاب کو نیشنل عوامی پارٹی نے چیلنج کر دیا تھا اور اس وقت کے سپریم کورٹ کے Benchنے صدر کے انتخاب کے بارے میں جو ریمارکس دئےے تھے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ صدر وفاق کی مضبوط ، قابل احترام اور انتہائی معزز شخصیت ہوتی ہے‘ انکو متنازعہ نہیں بنانا چاہےے۔صدارتی انتخاب آئین کے آرٹیکل 41اور آئین کے شیڈول IIکے تحت اور اس طرح صدارتی الےکشن رولز 88کے مطابق ہونے ہےں اور الےکشن کمیشن آف پاکستان اپنی آئینی ذمہ داری سے پوری طرح باخبر ہے اور اِس مرحلہ پر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے الےکشن کمیشن آف پاکستان سے صدارتی شیڈول کی فراہمی سمجھ سے بالا تر ہے۔ صدارتی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کا امیدوار واضح اکثریت سے کامیاب ہو جائے گا۔ حکمران اتحاد کا امیدوار موجودہ سیٹ اپ کے تحت 400کے قریب ووٹ حاصل کر سکتا ہے۔ اپوزیشن اےک مشترکہ امیدوار لانے کی کوشش میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے بھی 300کے قریب ووٹ مل سکتے ہےں۔ صدارتی انتخاب سے صدارتی الیکٹرول کالج کو مکمل کرنے کیلئے الےکشن کمیشن آف پاکستان نے 42نشستوں پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی نشستوں کے لئے ضمنی انتخابات22اگست کو کرانے کا شیڈول جاری کر رکھا ہے۔ صدارتی انتخاب کا الیکٹرول کالج پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ کے علاوہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے کل 1170ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔ تاہم تین صوبائی اسمبلیوں کے ہر رکن کا اےک ووٹ شمار نہیں کیا جاتا ہے بلکہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی مناسبت سے ہر صوبائی اسمبلی کے 65ووٹ شمار ہوتے ہےں ۔ صدارتی الےکشن رولز 88کے مطابق اور اِسی طرح آئین کے شیڈول IIکے تحت قومی اسمبلی کے 342، سینٹ کے 104اور بلوچستان کے 65اےک ممبر اےک ووٹ کے اصول کے تحت ووٹ ڈالیں گے ۔ جب کہ پنجاب ، سندھ اور خیبر پختون خواہ اسمبلی کے ارکان کا اےک ممبر اےک ووٹ کے برابر نہیں ہو گا۔ پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تعداد 371ہے ےہاں کے 5.70ممبران کا اےک ووٹ ہو گا۔ اِسی طرح سندھ اسمبلی کے 168ممبران میں سے 2.58اور خیبر پختون خواہ 124میں سے 1.90ممبران کا اےک ووٹ ہو گا۔ ضمنی انتخابات سے پہلے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں جو پارتی پوزیشن ہے اسکے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کو قومی اسمبلی میں 208ووٹ مل سکتے ہےں جب کہ پنجاب اسمبلی سے 52، بلوچستان اسمبلی سے 51، خیبر پختون خواہ اسمبلی سے 26، سندھ اسمبلی سے 06اور سینٹ سے 34ووٹ مل سکتے ہےں۔ اسی طرح حکمران اتحاد 377بنتی ہے۔ ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اسکی اتحادی جماعتیں اگر 42میں سے صرف نصف نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو انکے ووٹ کی تعداد 390 سے زےادہ ہو جائیگی۔ اسکے برعکس پیپلزپارٹی کی خواہش ہے کہ اپوزیشن اپنا اےک مشترکہ امیدوار لائے۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف اس حق میں نہیں۔ اگروزارت عظمیٰ کی طرح پیپلزپارٹی اور اسکی اتحادی جماعتوں نے اپنا اور پاکستان تحریک انصاف اور اسکی اتحادی جماعتوں نے اپنا امیدوار لایا تو پیپلزپارٹی کا صدارتی امیدوار موجودہ اسمبلیوں سے دو سو زےادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ضمنی انتخابات کے بعد اس کے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح تحریک انصاف کے امیدوار کو موجودہ اسمبلیوں سے 76ووٹ مل سکتے ہےں۔ ضمنی انتخابات کے بعد ان کے ووٹوں میں بھی یقینا اضافہ ہو گا۔ اسکے برعکس اگر پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف مشترکہ امیدوار لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ان کا مشترکہ امیدوار 288 سے زائد ووٹ لے سکتاہے۔ صدارتی رولزکے تحت صدارتی الیکٹرول کالج کے ووٹوں کی تعداد 706بنتی ہے جن میں سے 354ووٹ لینے والا امیدوار کامیاب قرار پائے گا نئے صدر کے انتخاب کیلئے ووٹنگ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صبح دس بجے سے شام تین بجے تک ہوتی ہے۔ اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہاﺅس میں پریذائڈنگ آفیسر چیف الےکشن کمشنر آف پاکستان جب کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے پریذائڈنگ آفیسرازن متعلقہ صوبے کے ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہونگے۔ پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی انتخاب لڑنے والے امیدواروں یا ان کے نمائندوں کی موجودگی میں ہو گی۔ چیف الےکشن کمشنر چاروں صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ اور قومی اسمبلی کے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد انہیں اکھٹا کرینگے اور زیادہ ووٹ حاصل کرنیوالے کو منتخب قرار دینگے۔ اگر دو یا زےادہ امیدوار اےک جتنے ووٹ حاصل کریں تو فیصلہ قرعہ اندازی کے ذرےعے ہو گا۔ چیف الےکشن کمشنر گنتی مکمل ہونے کے بعد منتخب امیدوار کے نام کا اعلان اسی وقت کرینگے اور وفاقی کابینہ سیکرٹری کو آگاہ کرینگے جو ان نتائج کا سرکاری اعلان کریگی۔ نومنتخب صدر سے ملک کے چیف جسٹس آئین کے آرٹیکل42 کے تحت حلف لیں گے۔واضح رہے کہ صدارتی انتخاب 9ستمبر سے پہلے کرائے جائینگے کیونکہ صدر آصف علی زرداری کا انتخاب 6ستمبر2008ءکو ہوا تھا۔ اِسی طرح جب نومبر1988ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم منتخب ہوئی اور معاہدہ کے تحت غلام اسحاق خان کو صدر منتخب کرایا گیا تو اس وقت پہلی مرتبہ الےکشن کمیشن آف پاکستان نے صدارتی الےکشن 88کے رولز قائم مقام صدر غلام اسحاق خان سے منظور کرائے تھے اور انہیں رولز کے تحت صدر غلام اسحاق خان کا انتخاب عمل میں لایا گیا تھا۔ اِسی پس منظر میں عوام کی رہنمائی کیلئے بتانا ضروری ہے کہ صدر جنرل ضیاءالحق (مرحوم) نے آٹھویں ترمیم کے ذرےعے صدر مملکت کے انتخاب کے الیکٹرول کالج کا دائرہ چاروں صوبائی اسمبلیوں بشمول قومی اسمبلی اور سینٹ تک وسیع کر دیا تھا۔ 1988ءمیں صدر غلام اسحاق خان نے الےکشن رولز بنائے اور 20سال بعد ستمبر2007ءمیں صدر جنرل پرویز مشرف کو جنرل پرویز مشرف بطور چیف آف آرمی سٹاف صدر کا بھی انتخاب لڑناچاہتے تھے لہٰذا آئینی ماہرین کو ےہ ذمہ داری دی گئی کہ اس کا کوئی حل نکالا جائے اور صدارتی انتخاب کے لئے صدارتی الےکشن 1988ءمیں ترامیم کی جائے۔ حکومتی قانون دانوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کا اےک فیصلہ قاضی حسین احمد بنام جنرل پرویز مشرف 2005ءکے مندرجات کو نکال کر وزارت انصاف و قانون و پارلیمانی امور نے نئے رولز تجویز کر دئےے جس کے تحت صدر پاکستان کے انتخاب میں حصہ لینے والے امیدوار سے آئین کے آرٹیکل 62اور 63کا اطلاق غیر مو¿ثر قرار دے دیا اور یوں 6اکتوبر 2007ءمیں صدارتی انتخاب میں سے اےک ہفتہ قبل صدارتی الےکشن رولز بدل دئےے گئے۔میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الےکشن کمیشن آف پاکستان اور انتخابی اصلاحات کمیشن کے چےئرمین کی حیثیت سے تجویز پیش کی تھی کہ صدارتی الےکشن رولز 88کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ غالباً ےہ تجویز18ویں ترمیم کے موقع پر بھی زیر بحث آئی تھی۔ صدارتی رولز 88کے ترمیم شدہ رولز کے مطابق صدر مملکت اپنے کاغذات نامزدگی کے وقت اپنے اثاثہ جات کے اکاﺅنٹس بھی منسلک کرنے کا پابند نہیں ہے۔صدر زرداری کے 6ستمبر2008ءکے انتخاب کے بارے میں پس منظر اور دیگر حوالہ جات میں کسی مناسب موقع پر کالم کے ذرےعے قوم کو آگاہ کروںگا۔ صدر زرداری اب تاریخ کا حصہ بننے جارہے ہےں ان کے سیاسی مستقبل پر کئی سوالات اُٹھائے جارہے ہےں۔