قسمت ساتھ دے تو یوں بھی ہوتا ہے کہ 261 رنز بنانے والی ٹیم ہار جاتی ہے اور 189 سکور بنانے والی ٹیم کامیاب ہو جاتی ہے۔ بارش عین وقت میں مدد کو آئی اور پاکستان کو سیریز میں 2-1 کی برتری حاصل ہو گئی۔ پاکستان نے 17 اوورز میں دو وکٹ پر 68 رنز بنائے تھے کہ بارش کی وجہ سے کھیل روک دیا گیا۔ بارش تھمی اور میچ دوبارہ شروع ہوا تو مہمان ٹیم کو فتح کے لئے 14 اوورز میں 121 رنز کا ہدف دیا گیا۔ خوش قسمتی سے پاکستان کو پاور پلے مزید اوور بھی ملے اور آخری اوورز میں نسبتاً کمزور با¶لنگ بھی۔
یہ تو تھی قسمت کی بات‘ دوسری طرف اگر کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے تو کپتان مصباح الحق نے ایک مرتبہ پھر ذمہ دارانہ اننگز کھیلی۔ حسب معمول وہ ایک اینڈ پر ڈٹے رہے اس مرتبہ انہوں نے حالات کے مطابق رنز بھی تیزی سے بنائے کیونکہ اسکے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ مصباح الحق کے ناٹ آ¶ٹ 53 رنز نے ویسٹ انڈیز کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ پاکستانی کپتان کی اس سیریز میں یہ تیسری نصف سنچری ہے۔ آخری دس میچوں میں پانچ مرتبہ پچاس سے زائد رنز بنا چکے ہیں۔ اس دوران وہ تین مرتبہ ناٹ آ¶ٹ بھی رہے۔ ون ڈے کرکٹ میں ان کی ایوریج 44.18 کی ہے جوکہ موجودہ ٹیم میں سب سے زیادہ ہے وہ ٹیم کے کامیاب بلے باز ہیں لیکن اس کے باوجود وہ عوامی سطح پر غیر مقبول ہیں اور اس معاملے میں میڈیا کے چند افراد کا بڑا منفی کردار ہے جو مصباح کو کپتان نہیں دیکھنا چاہتے اور ان کے سست انداز بیٹنگ کو نشانہ بنا کر ہر وقت منفی پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال کھیل کا میدان ہی اصل جج ہوتا ہے اور گرا¶نڈ ہی بہتر فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا کھلاڑی کتنا قابل ہے۔ کئی ایک خامیاں مصباح الحق میں ہیں۔ وہ بیٹنگ کرتے ہوئے سنگلز نہیں لے پاتے‘ سکور بورڈ کو متحرک نہیں رکھتے نوجوان کھلاڑیوں پر زیادہ اعتماد نہیں کرتے۔ وہ کوئی بہت دلیر اور فطری قائد نہیں ہیں۔ با¶لرز کی تبدیلی کے معاملے میں بھی زیادہ بڑے فیصلے نہیں کر پاتے لیکن موجودہ ٹیم میں وہ سب سے موزوں ہیں۔
دوسرے کامیاب کھلاڑی عمر اکمل تھے۔ جو وکٹوں کے پیچھے مسلسل کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی سے نہ صرف خود کو مصروف رکھتے ہیں بلکہ ان کے دلچسپ جملوں سے شائقین بھی خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ اس سیریز میں وہ خوب چمک رہے ہیں۔ اہم اور مشکل موقع پر رنز کر رہے ہیں۔ چوتھے میچ میں ان کے 29 ناٹ آ¶ٹ رنز نے کام مزید آسان کیا۔ اس سیریز میں عمر اکمل نے بھی گرا¶نڈ شاٹس کھیلے ہیں انہیں کامیابی ملی۔ تیسرے اور چوتھے میچ میں انہوں نے گرا¶نڈ شاٹس کھیل کر مسلسل با¶نڈریز حاصل کیں۔ وہ ایک ایسے بلے باز ہیں جو بڑے شاٹس بھی کھیل سکتے ہیں اور سنگلز ڈبلز کے ساتھ بھی سکور بورڈ کو حرکت میں رکھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ شاٹس کی ورائٹی بھی ہے اور رنز بنانے کے لئے زیادہ جدوجہد نہیں کرنا پڑتی۔ شرط صرف جذبات پر قابو رکھنا اور کریز پر وقت گزارنا ہے۔ عمر اکمل حالیہ سیریز سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کیونکہ جس نمبر پر وہ بیٹنگ کر رہے ہیں یہاں کھیل کر ان کی بیٹنگ میں نکھار آسکتا ہے اگر وہ دماغ کا بہتر استعمال کریں۔ بارش کے بعد اس میچ کے دو اہم کردار مصباح الحق اور عمر اکمل ہیں۔ حفیظ بھی نصف سنچری بنانے میں کامیاب رہے۔ مسلسل سات ون ڈے میچوں میں ناکامی کے بعد یہ ان کی پہلی بڑی اننگز ہے۔
با¶لنگ میں شاہد آفریدی مہنگے ثابت ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ وہاب ریاض بھی رنز روکنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ وہ بدقسمت بھی رہے کہ صفر پر حفیظ نے ان کی گیند کرس گیل کا کیچ چھوڑ دیا لیکن ان کی با¶لنگ پر مسلسل رنز بننا تشویشناک ہے۔ انہیں اس سلسلے میں اپنی خامیوں کو دور کرنا ہو گا۔ ان سے توقعات بھی ہیں اور ذمہ داری بھی‘ کپتان بھی انہیں سپورٹ کرتے نظر آرہا ہے تو پھر انہیں بھی خود کو غیر معمولی با¶لر ثابت کرنے کے لئے زیادہ محنت کرنا ہو گی۔
سیریز کا آخری میچ باقی ہے۔ پاکستان کے پاس سیریز جیتنے کا اچھا موقع ہے۔ چوتھے میچ میں کامیابی پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاباش مصباح الحق اینڈ کمپنی‘ لیکن ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں....!!!