اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+نوائے وقت نیوز+ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے وفاق اور چاروں صوبوں کو 15 ستمبر تک یا اس کے قریب بلدیاتی انتخابات کرانے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا کہ چاروں صوبے بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں تمام ضروری قانون سازی 15 اگست سے قبل کرلیں تاکہ 15 ستمبر یا اس کے دو ہفتوں کے دوران ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کرائے جا سکیں۔ واضح رہے کہ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے سپریم کورٹ سے بلدیاتی انتخابات کےلئے 6 ماہ کا وقت مانگا ہے، خیبر پی کے حکومت نے اکتوبر میں صوبے میں بلدیاتی انتخابات کی حامی بھر لی ہے۔ سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں اور وفاق کو تین ہفتے کے اندر بلدیاتی نظام کے حوالے سے قانون سازی اور حد بندیاں مکمل کرکے 15 اگست کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا‘ چیف جسٹس نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کرانے سے دہشت گردی سمیت ملک کے کئی اہم مسائل حل ہوجانے کی امید ہے‘ آئین کے تحت صوبوں اور وفاق کو ہرصورت میں بلدیاتی انتخابات کرانا ہوں گے، تاریخ میں مثالیں موجود ہیں جب ایک منٹ میں آرڈیننس جاری ہوتے رہے پھر بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے اتنی تاخیر کیوں کی جارہی ہے‘ وفاق کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے سے روگردانی کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات نہ کرانے پر درخواست گزار کو وفاق کیخلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت شروع کی تو وفاق اور چاروں صوبوں کے نمائندوں نے بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے اپنا موقف پیس کیا۔ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹو نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت کے دیہی علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی تیاری مکمل ہے تاہم کچھ مشکلات کے باعث شہری علاقوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے وقت دیا جائے کچھ قانون سازی کرنی ہے۔ عدالت نے کہا بتایا جائے کہ کیا اسلام آباد پاکستان کاحصہ ہے بھی یا نہیں۔ اسمبلیاں بحال ہوئی ہیں کسی آمر کی حکومت نہیں ہے۔ تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں کہ جب ایک ایک منٹ کے اندر آرڈیننس جاری کئے جاتے رہے تو پھر وفاق ایسی کونسی قانون سازی کرنا چاہتا ہے کہ جس کے بغیر اسلام آباد کے شہری و دیہی علاقوں میں بروقت بلدیاتی انتخابات کرانا ممکن نہیں حالانکہ وفاق میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود ہے جس میں وفاق کو چھ ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔ عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے حوالے سے درخواست گزار کوکب اقبال ایڈووکیٹ کو ہدایت کی کہ وفاق کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے مطابق چھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کے حوالے سے توہین عدالت کی درخواست دائرکی جائے۔ قائم مقام ایڈووکیٹ جنرل پنجاب مصطفی رمدے ایڈووکیٹ نے پنجاب حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ لوکل باڈیز انتخابات کیلئے قانون سازی کو حتمی شکل دینے کیلئے دو سے تین ہفتے درکار ہیں۔ جونہی قانون سازی کا عمل مکمل ہوگا الیکشن کمیشن سے بلدیاتی انتخابات کرانے کی تاریخ دینے کی استدعا کی جائے گی۔ سندھ حکومت کی جانب سے خالد جاوید نے بتایا کہ 31 دسمبر 2013ءکو بلدیاتی انتخابات کرا سکتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے پندرہ ستمبر کی تاریخ دے چکے ہیں۔ اس کیلئے قریب قریب ہی تمام صوبوں کو بلدیاتی انتخابات کرانا ہوں گے۔ اگر صوبوں میں بلدیاتی انتخابات ہوجائیں گے تو آپ ہی کا فائدہ ہوگا۔ ہر محلے میں ایک نمائندہ بیٹھا ہوگا۔ وہ آگے بتا سکے گا کہ فلاں گھر میں ایک دہشت گرد چھپا بیٹھا ہے اور پولیس کوئی ایکشن نہیں لے رہی۔ صوبہ بلوچستان کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل شکیل بلوچ نے موقف بیان کیا کہ بے گھر ہونے والے آئی ڈی پیز کی بحالی کے مسائل درپیش ہیں۔ جب تک آئی ڈی پیز کو اپنے اپنے علاقوں میں دوبارہ آباد نہیں کرلیا جاتا اس وقت تک بلدیاتی انتخابات کرانے کی تاریخ نہیں دے سکتے تاہم اگر عدالت کوئی تاریخ دے گی تو عمل کیا جائے گا۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایم این ایز‘ ایم پی ایز بھی تو آئی ڈی پیز کے متاثرہ علاقوں سے منتخب ہوچکے ہیں۔ ڈیرہ بگٹی میں وہاں کے لوگوں کی دوبارہ آبادکاری کی خبر خوشگوار ہے۔ 2010ءسے بلدیاتی انتخابات بارے کہہ رہے ہیں۔ خیبرپی کے کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ارشد شاہ نے بتایا کہ مارچ 2013ءکے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے قانون میں ترمیم کی جارہی ہے جس میں 2001ءکے آردیننس کی کچھ دفعات کو بھی شامل کیا جائے گا تاہم الیکشن کمیشن سے استدعاءکرچکے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے تاریخ دی جائے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے شیرافگن خان نے بتایا کہ جب تک چاروں صوبے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے قانون سازی اور حدبندیوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرکے تمام تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم نہ کردیں اس وقت تک الیکشن کمیشن کو نئی تاریخ نہیں دے سکتا۔ بلدیاتی انتخابات کرانا عام انتخابات کرانے سے بھی مشکل مرحلہ ہے۔ مقدمے کی مزید سماعت 15 اگست تک ملتوی کردی گئی۔ صوبائی وزیر بلدیات رانا ثناءاللہ خان نے کہا ہے کہ 24 جولائی کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا ہے، بلدیاتی انتخابات کے لئے 15 اگست تک قانون سازی مکمل کر لینگے انتخابات کا طریقہ کار اسمبلی میں اتفاق رائے سے طے کیا جائے گا، حلقہ بندیوں کے لئے الیکشن کمیشن سے رابطہ کرینگے، سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے بارے میں جو حکم دیا ہے اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ خان نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ نچلی سطح تک کونسلروں کے انتخاب میں عوام کو موقع دیا جائے کہ وہ کسی بھی سوشل ورکر کو منتخب کریں اس کے بعد ٹاﺅن کمیٹی اور کارپوریشن کی سطح پر پارٹی کی بنیاد پر انتخاب ہو تاہم اس پر ایوان میں بحث ہوگی اس حوالے سے مسودہ قانون لائینگے، اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے گا ۔ ہمیں قانون سازی کیلئے پندرہ اگست کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے پندرہ اگست تک قانون سازی کا عمل مکمل کرلینگے جس کے بعد الیکشن کمشن سے حلقہ بندیوں کے لئے رابطہ کرینگے۔