شب قدر کی بزرگی اس کے نام ہی سے ظاہر ہے۔ یہ رات سال بھر میں ایک مرتبہ آتی ہے۔ حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ شب قدر رمضان المبارک کے آخری دس طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ (ترجمہ) ”ہم نے اس کو لیلتہ القدر میں نازل کیا“ اسے شب (لیل) سے اسی لئے تعبیر کیا گیا کہ جس زمانے میں انسانوں کے پاس خدا کی وحی کی روشنی نہ رہے وہ اندھیری رات کی طرح تاریک ہوتا ہے۔ وحی کی روشنی آتی ہی تاریکیوں کے بعد ہے۔ اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ نوع انسان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے۔ دوسرا لفظ قدر ہے جس کے معنی ہیں پیمانہ.... یعنی قرآن نے نوع انسان کو حق و باطل کے ماپنے کے صحیح صحیح پیمانے عطا کئے ہیں۔ اس نے وہ مستقبل اقدار دی ہیں جن کے مطابق زندگی بسر کرنا مقصود انسانیت ہے۔
لیلتہ القدر جس میں قرآن نازل ہوا، اس کو ہزار راتوں سے بہتر کہا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نزول قرآن سے انسانی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ نعمت، دنیا بھر کی نعمتوں کے مقابل میں جنہیں انسان جمع کرتا رہتا ہے، گراں قدر ہے۔ یہ اس تمام علمی سرمایہ سے بہتر ہے جسے نوع انسان آج تک جمع کر سکی ہے اور جو وراثتاً اس تک منتقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس کی مثل ونظیر دنیائے فکروعمل میں کہیں نہیں مل سکتی۔ اس لئے اس کے ملنے پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ رمضان اور اس کی عید درحقیقت نزول قرآن کا جشن ہے۔
اب ہم نعت گوئی کی طرف آتے ہیں جو عہد رسالت ہی سے شروع ہو گئی تھی۔ نعت کی بنیاد رسول اکرم سے والہانہ عقیدت و محبت ہے۔
نعت گوئی کے لئے جذبہ عشق اور فکروفن دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ سید دو جہاں خاتم المرسلین نبی اکرم کی مدح وثنا کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور تاابد رہے گا جس کا ثبوت یہ ہے کہ خالق دو جہان مالک کائنات رب اللعالمین نے قرآن پاک میں جا بجا اپنے محبوب رسول محمد کی ثنا فرمائی ہے جو ہر اعتبار سے ”نعت“ کے زمرے میں آتی ہے۔ حضور کے پہلے ثنا خواں آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب ہیں جنہوں نے پیدائش کے فوراً بعد انہیں اپنی گود میں لیتے ہی پکارا ”محمد“ جی جان سے اے جان جاناں! تجھ پہ عبدالمطلب قربان ہے۔ پوتے کو ہاتھوں میں اٹھائے سینے سے لگائے وہ خانہ کعبہ پہنچے۔ حضور کے مربی و مہربان حضرت ابوطالب نے بھی حضور کی مدح میں اشعار کہے۔ انکے سب سے مشہور ومسحور کن شعر کا مفہوم یوں ہے۔
وہ رخشندہ رو واسطہ جس کے چہرے کا دے کر
دعا ابر باراں سے بارش کی کرتی ہے خلق خدا
جو یتیموں کا ملجا، محافظ ہے بیواﺅںکا!
سید الشہدا حضرت حمزہؓ، نبی اکرم کے پیارے چچا نے کہا....
ہیں محمد مصطفی ہم میں سزاوار اطاعت
مت نکالو منہ سے اقوال درشت و سخت انکے سامنے
حضور کی رضاعی بہن شیما بنت حلیمہ آپ کو لوری دیتے ہوئے اکثر یہ شعر گنگناتی تھی۔
محمد کو رکھیو ہمارے لئے اے خداوند زندہ
جواں ہوتے دیکھوں اسے ایک مرد طرحدار ورعنا کے پیکر میں ڈھلتے
جو حاسد ہیں اسکے اور اس کے عدو، کر انہیں تو ذلیل ورسوا۔ عزت جاوداں کا اور اس کو شرف کر عطا۔
حسان بن ثابتؓ کو شاعر رسالت کہتے ہیں۔ حضور نے ان کے حق میں دعا کی۔
یا رب تو اس کی روح القدس سے تائید فرما!
ان کا شعر ہے....
مرا باپ اور اس کا باپ اور عزت مری
ہے محمد کی عزت پہ قرباں
حضور نبی کریم جب قبا سے یثرب کو چلے تو دو رویہ جانثاروں کی صفیں تھیں۔ شہر قریب آ گیا تو جوش کا یہ عالم تھا پردہ نشین خواتین چھتوں پر نکل آئیں اور گانے لگیں۔
رخصتی کی گھاٹیوں سے یک بیک
چودھویں کا چاند
ہم پر ہو گیا آہا! طلوع
ہم پہ واجب ہے تشکر اس میں کیا شک
اک مناجاتی بھی باقی ہے خدا کا جب تلک
اے فرستادہ ہمارے درمیاں
لے کے آیا ہے وہ ربی حکم تو
جس کی لازم ہے اطاعت ہو بہو
دنیائے ادب میں نعت ایک ایسی صف ہے جو صرف حضور ہی کی نسبت رکھتی ہے اور اس کے صدقے انگننت لوگوں کیلئے ذریعہ معرفت وعرفان اور وسیلہ نجات بنتی ہے۔
نعت گوئی اور نعت خوانی اتحاد امت کی علامت اور ملت کی یگانگت کا استعارہ ہے۔ نعت بنیادی طور پر تبلیغ دین کا فریضہ بھی سرانجام دیتی ہے جو رنگ و نسل کے بتوں کو پاش پاش کرکے وحدت ملت اسلامیہ کا درس دیتی ہے۔ پاکستان کی بنیاد نظریاتی ہے اور یہ وطن اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لئے معرض وجود میں آیا۔ اس لئے اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ہر مسلمان کا فرض ہے۔