شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں ”درویشی کا لباس اوڑھے ہم چند دوست اکٹھے رہتے تھے۔ ہم میں سے ایک شخص نہایت ”پیٹو“ اور بے صبرا تھا۔ ایک روز ہم کھجوروں کے ایک باغ کی جانب جا نکلے جہاں پکی ہوئی سُرخ سُرخ کھجوریں دیکھ کر اس بے صبرے کا جی للچانے لگا اور وہ جلدی سے درخت پر چڑھ گیا۔ پیٹو ابھی کھجوریں کھا رہا تھا کہ اس کا ہاتھ چھوٹ گیا اور وہ گر کر مر گیا۔ اتفاقاً اُسی وقت باغ کا مالک بھی آ پہنچا اور اُس نے جب لاش دیکھی تو ہم سے دریافت کیا ”کہ اسے کس نے مارا ہے؟“
”میں نے جواب دیا کہ اسے اس کے پیٹ نے مارا ہے۔ پیش کو قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور یہ حقیقت ہے کہ پیٹو شخص کا دشمن اس کا پیٹ ہے اور اس کا پیٹ اس کیلئے ہاتھوں اور پاﺅں کی زنجیر بن جاتا ہے۔“
رمضان المبارک برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے اسی ایک ماہ میں ہم بدن اور روح کی ریاضت کر سکتے ہیں۔ بھوک انسان میں لطافت پیدا کرتی ہے۔ بھوک اور پیاس سے دوسروں کیلئے ”احساس“ جنم لیتا ہے۔ روزہ رکھنے سے، بھوکے پیاسے لوگوں کی کیفیات کا اندازہ ہوتا ہے۔
روزے کے بہت سے فائدے ہیں لیکن ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ قناعت اور ریاضت کے اس مہینے میں ہم دیگر مہینوں کی نسبت زیادہ کھاتے ہیں اور زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ رمضان میں ہم میں ایثار، احساس اور درد کی شدت میں اضافہ ہو جائے لیکن مشاہدہ یہی ہے کہ اس مہینے میں اگرچہ عبادات کثرت سے ہوتی ہے مگر ان عبادات کے اثرات ہمارے کردار و افعال میں نہیں دکھائی نہیں دیتے۔
رمضان سے ایک روز قبل کی قیمتوں اور رمضان کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ پھل سبزی، دودھ دہی، گھی سے لے کر کھانے پینے کی ہر شے کے دام دوگنا وصول کئے جانے لگتے ہیں گویا اس مہینے ہر چیز کے بھاﺅ کو پَر لگ جاتے ہیں، جس سے پوچھو وہ یہی کہتا ہے کہ اوپر سے قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ اوپر کون ہے؟ آخر کوئی نہ کوئی تو ذمہ دار ہو گا۔ یہ سب حکومتی ذمہ داروں کے کام ہیں لیکن ہر کوئی اپنی زندگی میں ”مست“ ہے۔ اسے کسی دوسرے کا کوئی احساس نہیں۔
ہمارے ثروت مند حضرات اور بیشتر پارلیمنٹ کے ممبران اور سیاست، رمضان کا آخری عشرہ مدینے میں گزارنا پسند کرتے ہیں مگر انہیں کون بتائے کہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوئے بغیر یا حقوق العباد پورے کئے بغیر عبادات کسی کام کی نہیں۔ آپ دل کو خوش رکھنے کیلئے بھلے ”عمرے“ کرتے چلے جائیں۔ لوگوں میں آپ کی بلّے بلّے ہو سکتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ سب قبول نہیں ہوتا۔ اگر کوئی وزیر، مشیر یا حکومتی اہلکار اپنے فرائض منصبی ادا ہی نہیں کرتا۔ وہ صرف اپنے پیٹ کیلئے رشوت لے کر روزمرہ کی اشیاءفروخت کرنے والوں پر ”چیک“ نہیں رکھتا تو اس کی عبادت کیسی؟ قیمتیں کنٹرول کرنے والے اگر آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا مظاہرہ کریں اور زیادہ ریٹ لگانے اور ملاوٹ کرنے والوں کو عبرتناک سزائیں دیں تو صورتحال بہت بہتر ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کیلئے ”احساس ذمہ داری“ کا ہونا ضروری ہے اور ہم ”احساس“ کی دولت سے محروم ہیں حالانکہ ہم سب جانتے ہیں ....
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
صدر، وزیراعظم سے لے کر ہر وزیر اعلیٰ، گورنر اور وزیر حکومتی عہدوں پر بیٹھ کر بیانات دیتے ہیں کہ کرپشن میں اضافہ ہو چکا ہے، رشوت، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی مگر سب کچھ برداشت کیا جا رہا ہے۔ قانون پر کہیں عملدرآمد نظر نہیں آتا۔ اللہ کے بندو! ”گا گے گی“ سے باہر نکل کر اپنے اختیارات کا استعمال کرو، عمل کر کے دکھاﺅ، جو لوگ ان خرابیوں کے ذمہ دار ہیں انہیں عبرت کا نشانہ بناﺅ تاکہ خوف سے کوئی اور ایسی حرکات نہ کرے۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ حکمران صرف چاہتے ہیں کہ بس ہم اپنا دورانیہ مکمل کر لیں۔ وزیراعظم اپوزیشن والوں سے اپنی ”باری“ کا انتظار کرنے کی اپیل کر رہے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نون کو اپنی باری تک انتظار کرایا --- یعنی تنقید مت کریں اور اپنی باری پر چاہے آپ بھی اس لوٹ کھسوٹ کا حصہ بن جائیں۔ عوام کا درد اور احساس کسی کو نہیں اور ہو بھی کیسے؟
ائر کنڈیشنڈ میں بیٹھ کر اگر کوئی روزہ رکھتا بھی ہے تو اسے کیا احساس کہ ایک دیہاڑی دار مزدور اس گرمی کی شدت میں روزہ کیسے رکھتا ہو گا؟ مہنگائی کہاں تک پہنچ چکی ہے۔ افطار و سحر کے اوقات میں لوڈشیڈنگ سے لوگ کس حال میں ہیں؟
موت ہمیں یاد نہیں، ہمیں کون سا مرنا ہے، ہم نے ایسی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے؟ حکومتی اہلکار کانوں میں تیل ڈال کر سوئے ہوتے ہیں یا پھر اپنے دل کے اطمینان کیلئے عمرے کی تیاریوں میں ہیں اور ہم ایسے لوگ یہ شعر پڑھ کر کڑھتے رہتے ہیں ....
خود بھی بھوکے رہو بچے بھی بھوکے رکھو
مفلسی پھر بھی نہ باز آئے تو روزے رکھو