ہرسال ماہِ رمضان کے آغاز پر ایسے بیسیوں افراد اور فلاحی و رفاہی ادارے و تنظیمیں ہمارے دروازے پر دستک دیتے اور اپنی کاوشیں گنوا کر تعاون کی اپیل کرتے ہوئے دی گئی زکوٰة کے بہترین مصرف اور شفاف استعمال کی ضمانت دیتے ہیں۔ اگر ہم بالغ النظری سے دیکھیں تو کئی نجی ادارے محض ”موسمی“ ہوتے ہیں جو صرف ماہِ رمضان میں ہی سامنے آتے ہیں۔ تھوڑی سی چھان بین کے بعد ان اداروں کی سکروٹنی کرتے ہوئے زکوٰة کے اہل اداروں کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں سینکڑوں میں سے چند ہی ایسے ادارے ہیں جنہوں نے اپنی خدمات کو بنیاد بناکر معاشرے میں اپنا اعتبار برقرار رکھا ہوا ہے۔ متاثرین وزیرستان کیلئے تو ہر کوئی زکوٰة و عطیات دے رہا ہے۔ لیکن میں اپنی زکوٰة فلسطینی مسلمانوں کیلئے کیوں نہ مختص کروں جو عالم اسلام کی جانب سے نظراندازی کا شکار ہیں۔ جہاں سینکڑوں ملالائیں صہیونی بربریت کا نشانہ بن چکی ہیں لیکن انکی مدد کیلئے کوئی کھڑا نہیں ہورہا جہاں ننھے ننھے بے گناہ معصوموں کی بوٹیاں صرف اس بنا پر اڑ رہی ہیں کہ انکے والدین اسرائیلی غلامی قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ جہاں نہتی انسانیت کی بکھری آنتیں اور خون میں لتھرے لاشے ہر صاحب دل کو تڑپائے دے رہے ہیں۔ میں اپنی زکوٰة ان سفید پوش گھرانوں کے سپرد کیوں نہ کروں جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے لیکن حالات سے مجبور ہوکر فاقہ کشی ان کا مقدر ہے۔ جہاں چولہا تو جلتا ہے لیکن انہیں بمشکل ایک وقت کی روٹی میسر آتی ہے۔ میری زکوٰة کے اصل حقدار تو وہ لاکھوں یتیم و مستحق بچے بھی ہیں جو وسائل سے محروم ہونے کی وجہ سے تعلیم سے مستفید نہیں ہوپارہے۔ انکے سرپرست اور والدین انہیں تعلیم تو دلانا چاہتے ہیں مگر وہ اپنے پیٹ کا ایندھن بجھانے کیلئے ہاتھ پیر ماریں یا اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں۔ یہاں بڑی تعداد میں ایسے بچے موجود ہیں جو یتیم ہونے کے بعد حالات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ان پر توجہ اور تربیت سے انہیں معاشرے پر بوجھ بننے سے بچایا جاسکتا ہے۔ یہ ہماری اولین ذمہ داری کہ ان بچوں پر خود دست شفقت نہیں رکھ سکتے تو کم از کم ایسے اداروں کا ساتھ دیں جو ان کے محفوظ مستقبل کیلئے کام کررہے ہیں۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ بھی ایسا ہی ایک بااعتبار ادارہ ہے۔ اس جدوجہد میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جیسے اداروں کا ساتھ دینا ہمارا انفرادی و اجتماعی فرض ہے۔ کیا میری زکوٰة کا میرے غریب رشتہ داروں پر کوئی حق نہیں جن کے بارے میں اسلام بھی پہل کی تعلیم دیتا ہے۔ ہسپتالوں میں پڑے غریب افراد جو مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے یا تمام سرمایہ بیماری پر خرچ ہوجانے کی وجہ سے وہ اپنے مزید علاج سے قاصر ہیں، یہ لوگ بھی تو میری زکوٰة و عطیات کے حقدار ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی قوم کو پرکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ اس کا رویہ اور برتاﺅ ہوتا ہے جو وہ اپنے غریب اور نادار لوگوں کے ساتھ رکھتی ہے۔ جب کوئی معاشرہ اپنے مجبور و بے کس لوگوں کو خودانحصار بنانے کی جانب توجہ دے تو یہ اس کے مہذب ہونے کی دلیل ہے۔ جب متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کے حالات زندگی بہتر کرنے کیلئے معاشرے کا ہر فرد انفرادی سطح پر کردار ادا کرے گا تو ہی قوم میں یکجہتی اور عروج آئے گا۔