لاہور( خصوصی نامہ نگار)پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید نے 6 برس سے مسلسل برسراقتدار پنجاب حکومت کی فنانشل مس مینجمنٹ پر وائٹ پیپر جاری کرتے ہو ئے کہا ہے کہ بیڈگورننس اور فنانشل ڈسپلن کے فقدان کے باعث صوبہ 10سال پیچھے چلا گیا ہے پنجاب 452ارب کا مقروض ہے، حکومت نے 385ملین ڈالر کے نئے قرضوں کی درخواست دے دی ہے اس سے صوبہ کے مالی مسائل میں اضافہ اور سود کی ادائیگی کا بوجھ بڑھے گا۔ انہوں نے وائٹ پیپر میں اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ پنجاب حکومت این ایف سی ایوارڈ کے تحت 2008کے بعد سے ہر سال100ارب روپیہ سالانہ اضافی وسائل حاصل کر رہی ہے اس کے باوجود صوبہ کے ذمہ واجب الادا قرضوں کا بوجھ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے اور خسارے کا بجٹ پیش کیا جا رہا ہے۔ وائٹ پیپر کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت بین الاقوامی مالیاتی اداروںایشین ڈویلپمنٹ بنک سے 350ملین اور انٹرنیشنل فنڈفار ایگرکلچر ڈویلپمنٹ سے 35ملین ڈالر کا نیا قرضہ لے رہی ہے پنجاب حکومت صوبہ کے تین شہروں میں میٹروبسیں چلانے کے لئے 100ارب کے وسائل مہیا کر سکتی ہے تو غربت میں کمی اور شہری ترقی کے منصوبوں کے لئے غیر ملکی بنکوں کی طرف کیوں دیکھا جا رہا ہے؟ شہباز شریف نے2008میں صوبہ کی باگ ڈور سنبھالتے وقت یہ وعدہ کیا تھا کہ آنے والی نسلوں کے لئے وہ قرضوں کا بوجھ چھوڑ کر نہیں جائیں گے مگر قرض پر قرض لیکر وہ آنے والی نسلوں کا بال بال قرضوں میں جکڑ رہے ہیں۔ قرضوں کی شرائط کتنی ہی نرم کیوں نہ ہوں اور واپسی کا دورانیہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو پھر بھی یہ بوجھ آنے والی نسلوں اور حکومت کے سر ہوگا۔ صوبائی حکومت 6برس سے بے کار منصوبوں پر قومی دولت ضائع کر رہی ہے۔ قیمتی وسائل اگر زراعت صنعت کی ترقی اور توانائی کے بحران کے حل کے لئے استعمال میں لائے جاتے تو یقیناًپنجاب میں خوشحالی آتی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ زرعی صوبہ میں امپورٹڈآلو اور پھل بک رہے ہیں۔ محمود الرشید نے کہا کہ نندی پور کے ناکام پاور پراجیکٹ کے بعد خدشہ ہے کہ ساہیوال کو ل پاور اور قائداعظم سولر پارک کا نجام بھی خزانے کی بربادی کی صورت میں سامنے نہ آئے ؟ انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں پنجاب کی فنانشل مس مینجمنٹ پر ایک دن بحث کروانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔