”عرب پتی“ شاعر کے 46 اردو مجموعے

آپ حیران مت ہوں تو کہوں کہ ایک عرب شاعر ڈاکٹر زبیر فاروق عربی زبان میں شاعری کرتا ہے یا نہیں کرتا، اردو زبان میں کمال کی شاعری کرتا ہے۔ ایسی صاف اردو بولتا ہے کہ میں سوچتا رہ جاتا ہوں کیا وہ واقعی عرب ہے۔ ہمارے ہاں عربی بولنے والے تو بہت ہیں۔ کئی ایسے ہیں کہ عربیوں سے بھی زیادہ اچھی عربی بولتے ہیں۔ بھارت کے ایک عالم دین ابوالحسن علی ندوی ہیں جنہیں لوگ پیار اور عقیدت سے علی میاں کہتے ہیں۔ وہ ندوة العلما لکھنﺅ کے سربراہ تھے۔ وہ بھارت کی طرف سے سعودی عرب میں سفیر تھے۔ ان کی عربی سن کر سعودی عرب کے شہزادے احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی کا اندازہ لگائیں اور پاکستان کے ایسے ایسے سفیر وہاں ہوا کرتے تھے اور اب بھی ہوں گے کہ وہ عربی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے ہیں انہیں نماز پڑھنی پڑ جائے تو مصیبت آ جاتی ہے۔ جو لوگ ساری عمر نماز پڑھتے ہیں۔ واجب الاحترام ہیں مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک بہت سادہ مسلمان حجاز میں لڑ پڑا۔ اس نے پنجابی میں اور عرب نے عربی میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ پاکستانی بڑی سادگی سے بولا سبحان اللہ میں اسے گالیاں دیتا ہوں اور وہ قرآن کی آیتیں پڑھتا ہے۔ 

سعودی عرب میں پاکستان کے کئی سفیروں کو اردو بھی پوری طرح نہیں آتی۔ وہ صرف مشکل سے انگریزی بول لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں افسری اور سفارت کاری کا معیار یہ ہے کہ متعلقہ آدمی کو انگریزی آتی ہے کہ نہیں آتی؟ بیورو کریٹ اور ڈپلومیٹ میں کوئی فرق نہیں۔ بیورو کریسی کو میں برا کریسی کہتا ہوں اور ڈپلومیسی ہمارے ہاں نیگیٹو سمجھی جاتی ہے۔ ان دونوں شعبوں میں اچھے لوگ بھی ہیں۔ کچھ تو بہت اچھے ہیں کچھ سفیر صرف نوازے جانے کی ذیل میں آتے ہیں۔
میں نے پاکستان میں ایک اعزازی ادبی سفیر ڈاکٹر زبیر فاروق کی اردو شاعری کے حوالے سے بات شروع کی تھی۔ میرے ایک دوست ہیں۔ عربی جانتے ہیں، بولتے بھی ہیں۔ کہنے لگے کہ میں ارب پتی ہوں میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔ اس نے کہا کہ پریشان مت ہوں میں ارب پتی نہیں مگر عرب پتی ہوں۔ جیسے کوئی کہے کہ میں آمر ہوں مگر اس کی آمریت کے آثار کہیں دور دور تک نہ تھے۔ اس نے کہا کہ میں (عین) سے عامر ہوں۔ میں نے یہ بات برادرم عامر محمود کے لئے لکھ دی تھی۔ انہیں کسی نے میرے خلاف بھڑکا دیا کہ محمد اجمل نیازی نے آپ کے خلاف لکھ دیا ہے؟ میں نے کہا کہ میں دوستوں کے خلاف نہیں لکھا کرتا اور عامر محمود تو میرے لئے بہت محترم ہے مگر جب آدمی ”بھڑکا“ ہوا ہو تو پھر وضاحت بھی اس کی سمجھ میں نہیں آتی اور میں اپنی نعت رسول کے ایک شعر میں پناہ گزیں ہو گیا ہوں۔
مری دنیا میں دنیاداریاں ہیں
تری دنیا میں دنیا چاہتا ہوں
یہ بھی حیرانی بلکہ پریشانی کی بات ہے کہ اب تک عرب شاعر ڈاکٹر زبیر فاروق کی اردو شاعری کے 46 مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق کے مشاعرے میں کئی لوگوں کو ڈاکٹر صاحب نے اپنے شعری مجموعے پیش کئے۔ انہوں نے دس بارہ سے زیادہ آدمیوں کو اپنا الگ الگ شعری مجموعہ پیش کیا۔ ظاہر ہے کہ میں ان شعری مجموعوں کے نام لکھ نہیں سکتا۔ میرے حصے میں ان کا جو شعری مجموعی آیا اس کا نام ”کرچیاں“ ہے۔
یہ بتانا تو میں بھول گیا کہ اکادمی ادبیات لاہور میں حلقہ ارباب ذوق کے زیراہتمام ایک زبردست عید مشاعرہ تھا۔ پاک ٹی ہاﺅس بند تھا تو سیکرٹری امجد طفیل اور جائنٹ سیکرٹری علی نواز شاہ نے خاص طور پر یہ اجلاس منعقد کروایا ہے۔ مشاعرے کی صدارت کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی۔ میں نے بہت معذرت کی کہ میں اب مشاعرے نہیں پڑھتا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے مشاعرہ پڑھنے کے لئے نہیں کہا۔ مشاعرے کی صدارت کے لئے کہا ہے۔
یہ بہت اچھا مشاعرہ تھا۔ میں ذرا دیر سے پہنچا کہ میں برادرم خاور نعیم ہاشمی کی قیادت میں اس مظاہرے میں شریک ہوا جو ماڈل ٹاﺅن میں شہباز شریف کے گھر کے سامنے کیا گیا۔ کبھی یہ نواز شریف کا بھی گھر تھا۔ ملک میں دونوں بھائی نہ تھے مگر حمزہ شہباز تو ہوں گے گھر میں؟ ان تک ننھے منے بچوں کی نعرے بازی اور فریاد پہنچی ہو گی جن کے والدین کو تنخواہ نہیں ملی بچوں میں مٹھائی اور ٹافیاں تقسیم کی گئیں۔ بچوں کو پتہ تو چلے کہ عیدالفطر میٹھی عید ہوتی ہے۔ میڈیا کی لڑائی میں حکومت کو فریق نہیں ہونا چاہئے۔
میں پہنچا تو مشاعرہ شروع ہو چکا تھا۔ سینئر شاعر ڈاکٹر کنول فیروز صدارت کر رہے تھے۔ میں نے بہت کہا کہ کنول فیروز مشاعرے کے لئے خالص صدر ہیں مگر انہیں کمپیئر اور شاعر شفیق احمد خان نے شریک صدر بنا دیا۔ ہم شریک چیئرمین ”صدر“ زرداری کو نہیں بھولتے۔
مشاعرہ زوروں پر تھا۔ سامعین تقریباً سب شاعر تھے۔ ایک دوسرے کو خوب داد دی اور مشاعرہ بہت بن گیا۔ امجد طفیل اور علی نواز شاہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ کوئی آدمی اٹھ کر نہ گیا ورنہ اپنا کلام پڑھنے کے بعد کئی نام نہاد شاعر کھسک جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے مشاعروں کو کاروبار بنا دیا ہے مگر یہ مشاعرہ ایک ادبی سرگرمی تھی۔ لگتا ہے کہ یہ مشاعرے کی روایت زندہ کرنے کی ابتدا ہے۔ اکادمی کے سرگرم افسر جمیل نے بہت تعاون کیا۔ وہ خود بھی شاعر ہیں۔
کچھ تو رستے میں رہ گیا ہے مرا
مڑ کے کیوں دیکھنے لگی ہوں میں
نجانے کیوں مجھے فرہاد ترابی کا یہ شعر بھولتا نہیں ہے۔
تو غلط سوچ کے بیٹھا ہے سر کنج قفس
یہ تری آہ و بکا تجھ کو رہائی دے گی
عمر گزری فریاد کرتے رہے مگر ابھی قید ختم نہیں ہوئی۔ قیدی اور قائد میں فاصلے ختم ہوں گے تو بات بنے گی۔
ڈاکٹر ضیاالحسن اور ان کی اہلیہ حمیدہ شاہین میں کون اچھا شاعر ہے؟ میں بتاﺅں گا نہیں کہ دونوں مشاعرے میں موجود تھے۔ آخر میں عرب شاعر ڈاکٹر زبیر فاروق کا ایک حسب حال شعر سناتا ہوں۔ آپ کو مزہ آ جائے گا۔
جنگل جُو میں صحرا مہکے
ایک عرب جب اردو بولے
چلیں میں بھی اپنا شعر عرب شاعر کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
اس دل کے صحرا میں
تجھے بونا چاہتا ہوں
تری جاگتی آنکھوں میں
میں سونا چاہتا ہوں

ای پیپر دی نیشن