لاہور (اپنے نامہ نگار سے +نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے توہین رسالت کیس میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی اپیل باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے اسکی سزائے موت پر عملدرآمد تاحکم ثانی روک دیا ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے لاہور رجسٹری میں آسیہ بی بی کی درخواست پر سماعت کی۔ ملزمہ کے وکیل ایڈووکیٹ سیف الملوک نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ عدالت عالیہ نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے حقائق کو محلوظ خاطر نہیں رکھا۔ ان کی موکلہ گزشتہ چھ سال سے ڈیتھ سیل میں پڑی ہوئی ہے جونہ صرف انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آتا ہے بلکہ انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے۔ ملکی قانون میں بھی یہ بات واضح کی گئی ہے کہ کسی بھی مقدمے میں اگر عدالت عظمیٰ یہ سمجھے مقدمے کے تمام پہلوئوں کا احسن طریقے سے جائزہ نہیں لیا گیا تو مقدمے کا دوبارہ جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ سماعت کے دوران اس مقدمے کے مدعی اور ننکانہ صاحب کی مسجد کے امام محمد سالم بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ مدعی مقدمہ نے اپیل کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ ابتدائی سماعت کے بعد عدالت نے درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے آسیہ بی بی کو دی جانے والی سزائے موت پر عملدرآمد تاحکم ثانی معطل کر دیا اور استغاثہ کو شواہد پیش کرنے کی ہدایت کی۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جب تک ملزمہ کی طرف سے دائر کی گئی اپیل پر فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک سزائے موت پر عملدرآمد نہ کیا جائے۔ آسیہ بی بی کو 2010ء میں ضلع ننکانہ کی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔ جسٹس انوار الحق اور جسٹس شہباز رضوی پر مشتمل لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے فیصلے میں مقامی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کو برقرار رکھا۔ آسیہ بی بی ان دنوں ملتان کی خواتین کی جیل میں قید ہے۔