برطانیہ میں دُہری شہریت کے حامل الطاف حسین کی مرن برت کی دھمکی کے بعداِس اَمر کا جائزہ لینا ضروری ہوگیا ہے کہ کیا الطاف حسین یا کسی بھی فرد کو بیرونِ ملک بیٹھ کر منی پاکستان کراچی یا پاکستان کے کسی بھی علاقے کی تقدیر سے کھیلنے کی اجازت دی جا سکتی ہے ؟ یہاں اِس اَمر کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کراچی میں اُردو زبان بولنے والے پاکستانیوں کا شمار محب وطن مہذب شہریوں میں ہوتا ہے، اُن کی اپنی جائیدادیں ہیں، اپنے کاروبار ہیں ، اپنی ملازمتیں اور پارلیمنٹ میں موثر نمائندگی حاصل ہے جبکہ اُردو بولنے والے دانشور اندرون و بیرون ملک اچھی پوزیشنوں پر فائز ہیں حتیٰ کہ ملکی سول و عسکری اداروں کی قیادت بھی کر چکے ہیں ۔ اگر پنجاب یا دیگر صوبوں میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی اکثریتی آبادی کےساتھ اُن کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو کراچی میں اُردو بولنے والے پاکستانی اللہ کے فضل و کرم سے کہیں زیادہ بہتر معاشی ، سماجی و سیاسی زندگی کے حامل ہیں، لہذا الطاف حسین کو مہاجرازم کے نام پر پاکستان کے دل کراچی میں کسی طالع آزمائی میں پڑنے سے قبل خطے کی زمینی صورتحال پر بھی فکر کرنی چاہیے کیونکہ بنگلہ دیش میں ایسا اِس لئے ممکن ہوا تھا کیونکہ ہزار میل کی دوریاں درمیان میں حائل تھیں جہاں آج بھی بے بسی کی زندگی گزارنے والے پاکستانی محصورین اپنے آپ کو مہاجر نہیں کہتے ہیں بلکہ پاکستان کے نام پر آس لگائے بیٹھے ہیں ۔ حالیہ دور میں اُن کی بہتری کی موثر آواز اگر پاکستان میں بلند کی گئی ہے تو وہ بھی پنجاب کے ایک اہم سپوت مرحوم مجید نظامی نے ہی بلند کی تھی اور آج بھی اُن کے اخبار میں قائم فنڈ کے ذریعے اُن کی صاحبزادی اِن بے سہارا لوگوں کی بخوبی مدد کر رہی ہیں۔ چنانچہ خطے کی حساس صورتحال کے پیش نظر الطاف حسین کو یہ اَمر بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ برما میں مسلمانوں کےساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیا کراچی کی مہذب عوام اُن کی کسی طالع آزمائی کے متحمل ہو سکتے ہیں ؟
الطاف حسین کو کسی طالع آزمائی میں پڑنے سے پہلے تحریک پاکستان کے حقیقی خدوخال پر بھی فکر کرنی چاہیے ۔ اُنہیں اِس حقیقت کو بھی محسوس کرنا چاہیے کہ23 مارچ1940 میں قراردادِ لاہور جسے قراردادِ پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کے حوالے سے لاہور میں تحریکِ پاکستان کی ابتدا کیوں کی گئی۔تاریخی حقائق کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ تقسیم ہند کے ذریعے قیام پاکستان (14 اگست 1947 ) تک ہندوستان پر برطانوی حکومت ہند کی عملداری تھی۔ قائداعظم 1930 میں لندن چلے گئے تھے جہاں اُنہوں نے پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کی ۔ اُس وقت اُنہوں نے محسوس کیا تھا کہ ہندو کانگریس اور انگریز قیادت متحدہ ہندوستان( اکھنڈ بھارت) کی حامی ہے اور ہندو کانگریس کےساتھ مل کر برّصغیر کے مسلمانوں میں نفاق پیدا کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں لہذا، حالات کی نزاکت کے پیش نظر جناح نے انگلستان میں چند برسوں کےلئے اپنا قیام بڑھا دیا تھا۔ بالآخر ہندوستان میں بکھری ہوئی مسلم قیادت کو یکجہتی کی لڑی میں پرونے کےلئے علامہ اقبال ، لیاقت علی خان اور دردمند دل رکھنے والے دیگر مسلم زعما¿ کی درخواست پر قائداعظم لندن سے واپس تشریف لائے اور آل انڈیا مسلم لیگ کو منظم کرکے تحریک پاکستان کی ابتدا کی۔ اِس اہم دور میں بھی علامہ اقبال نے شدید علالت کے باوجود مسلم علیحدہ مملکت کے حصول کےلئے 1936/37 میں بذریعہ کانفیڈنشل خطوط قائداعظم سے مشاورت جاری رکھی۔جناح اقبال مشاورت کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ متحدہ ہندوستان کا آئین صرف ہندو اکثریت کے مخصوص مفادات کا حامل ہونے کے باعث جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی آزادی کی اُمنگوں کو نیست و نابود کر دیگا ، اندریں حالات کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔ چنانچہ جناح اقبال مشاورت میں تین بنیادی نکات کو پیش نظر رکھا گیا۔ آزادی¿ ہند کے حوالے سے متحدہ ہندوستان (اکھنڈ بھارت) کے آئین کو تسلیم نہ کیا جائے بلکہ بّرصغیر میں مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کے قیام کےلئے تقسیم ہند پر زور دیا جائے کیونکہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ اسلامی شرعی نظام کے نفاذ کے ذریعے ہی ایک اسلامی رفاہی ریاست میں حل کیا جا سکتا ہے جس کا نفاذ ایک علیحدہ مسلم مملکت میں ہی ممکن ہے اور یہ کہ آئندہ برسوں میں تحریک پاکستان کو مسلم اکثریتی صوبوں میں منظم کرنے کےلئے مسلم لیگ کا اہم سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد کیا جائے۔چنانچہ علامہ اقبال کی وفات کے بعد 23 مارچ 1940 میں لاہور سے ہی تحریک پاکستان کا آغاز کیا گیا ۔ چونکہ تحریک پاکستان کے اجرا¿ کے بعد ہندو اکثریتی صوبوں میں ہندو اکثریت انگریزوں کی حمایت سے مسلمانوں کےساتھ معاندانہ رویہ اختیار کئے ہوئے تھی لہذا، اِن سوالات نے جنم لیا کہ ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کےلئے قائداعظم کی پالیسی کیا ہوگی۔ رئیس احمد جعفری نے 1960 میں خطباتِ قائداعظم پر لکھی گئی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اِس سوال کا جواب قائداعظم نے 1941میں بمبئی میں مسلمانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وضاحت سے اِن الفاظ میں دیا: " غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ساڑھے چھ کروڑ مسلمانوں کو جو اکثریت کے منطقوں میں ہیں ایک کل ہند متحدہ حکومت کے تابع کر دیا جائے تو باقی ماندہ ڈھائی کروڑ مسلمانوں کو جو دیگر صوبہ جات میں ہیں کیا فائدہ یا نقصان پہنچ سکتا ہے : میں جس صوبہ میں اقلیت میں ہوں وہاں اپنی قسمت پر شاکر ہو کر اپنا فرض ادا کرونگا لیکن میں اُن مسلمانوں کو جو اکثریتی صوبوں میں ہیں دوامی اقلیت اور ہندوﺅں کے اقتدار سے آزاد کراﺅنگا " ۔ بہرحال قائداعظم نے اور آنے والی حکومتوں نے بھارتی ظلم و ستم سے اُجڑ کر پاکستان آنے والے لاکھوں مہاجروں کی پاکستان میں آبادکاری میں بے مثال کردار ادا کیا ۔ کراچی میںکورنگی اوردیگر علاقوں میں نئی بستیاں بسا کر بیشتر مہاجروں کو بخوبی آباد کیا گیا جس کے باعث اُردو بولنے والے پاکستانیوں کو نہ صرف آبرو مندانہ زندگی گزانے کا موقع ملا بلکہ کراچی کے شہری ہونے کے باعث لاکھوں پاکستانیوں کو بیرونی ممالک روزگار کے مواقع بھی ملے چنانچہ شہری سہولتوں کے باعث ہی ہزاروں اُردو بولنے والے پاکستانیوں بشمول الطاف حسین نے بیرون ممالک دُہری شہریت حاصل کی لیکن اُن کی شہریت کے ریکارڈ میں لفظ مہاجر کہیں درج نہیں ہے بلکہ اُنہیں آبرومندانہ طور پر پاکستانی نژاد ہی لکھا گیا ہے ۔
حالیہ دنوں ایک سابق بھارتی ،راچیف ، امرجیت سنگھ کے اِس انکشاف کے بعد کہ اب الطاف حسین انگلستانی ایجنسی MI6 کے مہمان ہیں الطاف حسین نے تحمل سے کام لینے کے بجائے پاکستانی قومی سلامتی کے منافی اشتعال انگیز بیانات دیئے ہیں۔ آخری حربہ کے طور پر اپنے مقاصد کے حصول کےلئے اب مہاتما گاندھی کا مرن برت کا حربہ استعمال کرنے کے درپے ہیں جو انتہائی حیران کن اَمر ہے جس کا خود اُردو زبان بولنے والے پاکستانیوں کو بروقت موثر تدارک کرنا چاہیے۔