انکوائری کمیشن کی رپورٹ دو سو سینتیس صفحات پر مشتمل ہے۔کمیشن کے فیصلے کا ذکر آخری دو صفحات پر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق انکوائری کمیشن آٹھ اپریل دوہزار پندرہ کو تشکیل دیا گیا۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے تین جولائی کو کارروائی مکمل کی۔انکوائری کمیشن کے کل انتالیس اجلاس منعقد کئے گئے، مجموعی طور پر کمیشن کے سامنے انہتر گواہ پیش ہوئے، جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کےدوران گیارہ ریٹرننگ افسران گواہی کیلئے پیش ہوئے، تحریک انصاف نےسولہ ،الیکشن کمیشن نے پندرہ جبکہ مسلم لیگ ق نے چودہ گواہ پیش کئے، رپورٹ کے مطابق الیکشن عوام کی حقیقی نمائندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات میں انتخابات میں معمولی کوتاہیاں دیکھنے میں آئیں تاہم مجموعی طورپرعام انتخابات دوہزارتیرہ آئین اورقانون کے مطابق صاف اور شفاف ہوئے،، الیکشن کمیشن کے ممبران نے موثر کام نہیں کیا، سٹاف کی تربیت بھی ٹھیک نہیں تھی۔۔۔ رپورٹ میں تینوں ججز نے متفقہ فیصلہ میں کہا ہے کہ انتخابات میں الزامات لگانے والے ثبوت فراہم نہیں کرسکے، کسی کا الیکشن کمیشن کے سٹاف سے دھاندلی بارے کوئی تعلق نہیں ملا۔۔۔ رپورٹ کے مطابق فارم پندرہ کا الیکشن پر کوئی اثر نہیں، نہ اسکا الیکشن کے نتائج پر اثر پڑتا ہے،، فارم پندرہ کی گمشدگی کا انتخابات کے نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑتا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات دوہزار تیرہ قانون کے مطابق تھے، ایسے شواہد نہیں ملے جن کی بنیاد پر عام انتخابات کو مکمل طور پر غیر شفاف قرار دیا جا سکے۔
وزارت قانون نے انتخابی دھاندلیوں سے متعلق انکوائری کمیشن کی رپورٹ پبلک کردی
Jul 23, 2015 | 21:38