اسلام آباد (خبرنگار+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) گزشتہ 25 سال میں 34 ارب روپے سے زائد کے قرضے معاف کرانے کی فہرست سینٹ میں پیش کر دی گئی۔ یہ قرضے 1990ء سے 2015ء کے دوران معاف کرائے گئے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے پیش کی گئی سپننگ مشینری آف پاکستان نے ایک ارب 38 کروڑ، سورج سٹیل ملز نے ایک ارب 40 کروڑ، پاکستان نیشنل ٹیکسٹائل ملز نے ایک ارب 16 کروڑ، پاکستان نیشنل ٹیکسٹائل ملز نے ایک ارب 16 کروڑ، فرسٹ توکل مضاربہ نے 62 کروڑ، گلیمر ٹیکسٹائل ملز نے 53 کروڑ، میٹروپولیٹن سٹیل کارپوریشن نے 53 کروڑ، کیورل کیٹ لمیٹڈ نے 90 کروڑ، کوہ نور لومز نے 94 کروڑ، کوالٹی سٹیل ورکس لمیٹڈ نے 98 کروڑ روپے کے قرضے معاف کرائے۔ حکومت نے کہا ہے کہ ناقابل ادا قرضوں کی وصولی کے لیے نیب آرڈیننس اور رقومات کی وصولی کا آرڈیننس استعمال کیا جائے گا، این پی ایل کی تیز وصولی کیلئے ایف آئی آر او کو مضبوط کیا جائے گا،حکومت کی جانب سے یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے تحت اب تک 9ہزار 20افراد نے وی ٹی سی ایس سکیم کے تحت اپنی بقیہ واجب الادا رقوم جمع کرائی ہیں، 850ملین روپوں کا ٹیکس اس سکیم کے تحت حاصل کیا گیا ہے، جبکہ سکیم کی اشتہار سازی پر 6کروڑ 10لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ کلثوم پروین نے وقفہ سوالات کے دوران سوال اٹھایا کہ یوٹیلٹی سٹورز میں 16 ارب کی کرپشن کی گئی ہے جس پر وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کہا کہ اگر اس میں کسی قسم کی کرپشن نظر آئی تو آڈٹ کیا جائے گا۔ ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جائیگی۔ نعمان وزیر نے کہا کہ 4ملین لوگ ٹیکس نیٹ میں ایف بی آر کی رپورٹ میں موجود ہیں اور ان میں سے صرف 9ہزار افراد نے ٹیکس جمع کرایا ہے جس کا جواب دیتے ہوئے زاہد حامد نے کا کہ یہ حقیقت ہے ٹیکس جمع کرانے والوں کی تعداد کم ہے، حکومت اس تعداد کو مزید بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ احسن اقبال نے بتایا کہ راہداری منصوبے میں اقتصادی زون کیلئے کسی صوبے نے فزیبلٹی وفاقی حکومت کو نہیں دی، اکنامک زونز کیلئے سرمایہ کاری بورڈ نے پیسے دیئے ہیں صنعتی زون کی فزیبلیٹی کمرشلی درست ہوں، جہاں کامیابی ہوتی وہاں پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، صوبہ خیبر پی کے سمیت بلوچستان اور سندھ کی حکومتیں اقتصادی راہداری کے حق میں ہیں اور کچھ عناصر موجود ہیں جن کو پاکستان کی ترقی ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ 2030ء تک چلنے والے منصوبے میں تین حکومتیں آئیں گی اور وہ کسی کی بھی حکومت ہو سکتی ہے۔ ادھر چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ اور مردم شماری میں تاخیر کے معاملے پر چھوٹے صوبوں کے خدشات اور تحفظات دور کئے جانے چاہئیں۔ سینیٹر سسی پلیجو کے توجہ دلائو نوٹس کے معاملے پر ریمارکس میں چیئرمین سینٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے مسلسل دوسرا بجٹ پرانے این ایف سی ایوارڈ کے تحت پیش کیا ہے‘ نئے این ایف سی ایوارڈ کے لئے پیش رفت ہونی چاہیے تھی۔ مردم شماری میں بھی مسلسل تاخیر ہو رہی ہے۔ ان دونوں معاملات پر چھوٹے صوبوں کے خدشات ہیں کیونکہ صوبوں کا موقف ہے کہ اگر مردم شماری بروقت ہو تو آبادی میں اضافے کی صورت میں انہیں اضافی وسائل بھی حاصل ہونگے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا بنکوں سے قرضے معاف کرانے کا معاملہ پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے لئے مجوزہ کمشن کے ٹی او آر میں شامل کیا جا رہا ہے‘ احتساب آرڈیننس کے تحت بنک قصداً نادہندہ کے خلاف قرض کی وصولی کے لئے فوجداری مقدمہ دائر کر سکتے ہیں۔ موبائل فون صارفین سے 14 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس اور 18 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے‘ موبائل فون صارفین کے لئے ٹیکسوں میں کمی کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ وفاقی حکومت نے ٹیکس قوانین میں شفافیت لانے کیلئے ایف بی آر کے استثنیٰ جاری کرنے کے اختیارات ختم کر دیئے ہیں۔ صرف وفاقی حکومت اقتصادی رابطہ کمیٹی کی منظوری سے قومی سلامتی‘ قدرتی آفات‘ فوڈ سکیورٹی‘ پسماندہ علاقوں کی ترقی اور دوطرفہ اور کثیر الجہتی معاہدات کی صورت میں استثنیٰ دے سکتی ہے۔ رعایتی ایس آر اوز کو مرحلہ وار ختم کیا جائے گا۔ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے لئے الگ کوئی محکمہ نہیں ہے‘ ان لینڈ ریونیو سروس تمام ان لینڈ ٹیکسوں کا انتظام کرتا ہے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے کہا ٹریکٹرز کی قیمتوں میں کمی لانے کے لئے بیلاروس کو ٹریکٹر سازی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے‘ ٹریکٹر سازی کا معیار بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ ق لیگ کے سیکرٹری جنرل سینٹر مشاہد حسین سید نے کہا بیرون ملک سرکاری وفود کے دوروں کے دوران ملنے والے تحائف توشے خانے میں جمع کرائے جانے چاہئیں۔ سینٹ میں کالا باغ ڈیم کے حوالے سے چیئر مین واپڈا کے بیان پر پیپلز پارٹی نے علامتی واک آئوٹ کیا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر مختار عاجز دھامڑا نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کا مسئلہ چیئرمین واپڈا کے عہدے سے بڑا ہے، چیئر مین واپڈا کالاباغ ڈیم پر کالم لکھتے ہیں، لاہور میں کہا جاتا ہے ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم کیلئے لاشیں بھی گرائی جائیں تو کوئی بات نہیں ہے۔