’’ابو کچھ کریں بہت درد ہے‘‘ ننھے کشمیری زخموں سے چور مگر آزادی کی تڑپ برقرار

سرینگر /اسلام آباد(بی بی سی+سپیشل رپورٹ) کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے چھروں کے استعمال کے نتیجے میں بچے زخمی اور آنکھوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ 8 سالہ آصف رشید اور 13 سالہ میر عرفات بھارتی فورسز کے فائر کے گئے چھروں کا نشانہ منگل کی شب اننت ناگ میں بنے۔ ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل عرفات تکلیف سے چلاتے ہوئے کہہ رہا ہے ’’خدارا، ابو کچھ کریں، میں بہت درد ہے‘‘۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ چھرے عرفات کے دل، معدے اور انتڑیوں میں گھس چکے ہیں جبکہ کچھ نے تو ریڑھ کی ہڈی کو بھی چھوا ہے۔ ایک ڈاکٹر کے مطابق اس کے کئی آپریشن کرنے کی ضرورت ہے۔ چھروں کے نتیجے میں آصف کی دائیں آنکھ اور سینے پر زخم ہیں۔ عرفات کے والد عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ بچے اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنے جب وہ گھر کے باہر کرکٹ کھیل رہے تھے۔ ضلع شوپیاں کی رہائشی انشا ملک کی دونوں آنکھیں فورسز کی جانب سے چھروں کی وجہ سے ختم ہوگئیں، اس 14 سالہ لڑکی کے جسم میں سو کے قریب چھرے۔ اسی طرح دس جولائی کو چار سالہ زہرہ مجید سرینگر کے نواحی علاقے میں ہندوستانی فورسز کے فائر کیے گئے چھروں کی زد میں آئی جس سے اس کی ٹانگیں اور پیٹ متاثر ہوا۔ دریں اثناء ایک بھارتی خبر رساں ویب سائٹ کے سروے کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے بچوں کو نہ تعلیم کی بہتر سیولیات میسر ہیں اور نہ ہی وہ تفریح کیلئے باہر جا سکتے ہیں۔ قابض بھارت نے ان سے وہ سب کچھ چھین رکھا ہے جو ان کا بنیادی حق ہے۔ مقبوضہ کشمیر گزشتہ 70 سال سے بھارت کے ظلم و ستم کا شکار ہے۔ اس کی کئی نسلیں بھارتی فوج کی بربریت کا شکار ہوئیں لیکن انھیں سرنگوں نہ کر سکیں۔ خبر رساں ادارے نے مقبوضہ کشمیر کے کچھ بچوں سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ وہ بھارت کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ان بچوں کے معصومانہ جوابات نے بھارتی میڈیا میں کھلبلی مچا دی ہے۔ 13 سالہ صفان نثار کا کہنا تھا کہ بھارت ایک پولیس فورس ہے جو بچوں کو مارتی ہے۔ جب مظاہرین کے نعروں کی گونج اپنے کانوں میں سنتا ہوں تو میرا دل بھی کرتا ہے کہ میں ان کے ساتھ شامل ہو کر بھارت کیخلاف نعرہ بازی کروں۔ ہم بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ 12 سالہ معاون تسنیم نے کہا بھارت ایک ظالم ملک ہے۔ ہم آزادی چاہتے ہیں۔ معاون کا کہنا تھا کہ ہمیں بھارتی پولیس اور فوج پر بالکل اعتبار نہیں۔ 9 سالہ بچی ردا شفیع کا کہنا تھا کہ میرے والدین بھارت سے نفرت کرتے ہیں، اس لئے میں بھی اس سے نفرت کرتی ہوں۔ دانش کا کہنا تھا کہ بھارت ایک شاطر ملک ہے جس نے ہم کشمیریوں پر قبضہ کرکے ہم پر ظلم وزیادتی کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔ اگر بھارتی فوج ہماری ہوتی تو وہ کبھی ہم پر گولیاں نہ چلاتی۔ ہم بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ چودہ سالہ مہرین کا کہنا تھا کہ بھارت ہماری لڑکیوں کو مار رہا ہے۔ بھارتی خبر رساں ادارے نے لکھا یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم کشمیری بچوں کو کھو رہے ہیں۔بھارتی فوج نے کشمیری مظاہرین کے خلاف جو پیلٹ گنز استعمال کی ہیں ان سے سینکڑوں کشمیریوں کی آنکھوں میں زخم آئے ہیں۔ مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال سری نگر کے ایک آپتھامالوجسٹ نے میڈیا کو بتایا کہ اس نے سینکڑوں کشمیری زخمیوں کا علاج کیا جن کی آنکھوں میں پیلٹ گن سے زخم آئے جبکہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے لوک سبھا میں غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ صرف 50 کشمیری نوجوانوں کی آنکھیں متاثر ہوئی ہیں۔ پیلٹ گن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس سے بڑے قریب سے فائر کیا جاتا ہے جس سے چھرے نکل کر مختلف اطراف میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ چھرے بڑی رفتار سے گن سے نکلتے ہیں اور جلد کے اندر دھنس جاتے ہیں اگر یہ چھرہ آنکھ کو لگے تو آنکھ مستقل طور پر متاثر ہو سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...