تا دم مرگ اصغر شاد نوائے وقت سے ہی منسلک رہے۔ 35 سال کے طویل عرصے کی صحافت، وہ بھی نوائے وقت کے ساتھ نظریاتی وابستگی نے ہمارے دوست کو اپنے ہم عصروں میں نمایاں مقام عطا کیا۔ وہ گزشتہ دو سال سے زندگی کو جبر مسلسل کی طرح گزارنے پر مجبور تھے۔ جگر کے عارضے کی جاں لیوا بیماری کا جس بہادری اور جوانمردی سے آخری دم تک انہوں نے مقابلہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ اپنی صحافتی خدمات بھی پوری تندہی اور محنت سے انجام دیں اس کی راولپنڈی شہر میں نظیر نہیں ملتی۔ گزشتہ ہفتے کی شام کی وہ زندگی کی بازی ہار گئے اور ہزاروں دوستوں، مداحوں، ساتھیوں اور اہل خانہ کو غم کی اتھاہ گہرائیوں میں چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
وہ جو بیچتے تھے دوائے دِل
وہ دکان اپنی بڑھا گئے
اصغر شاد مرحوم میرے ہمدم دیرینہ تھے دبنگ شخصیت کے مالک مگر دِل کے کھرے اور سچے۔ کسی سے راضی ہیں تو اُس پر جان و دِل سے واری اور اگر کسی کو ناپسند کرتے ہیں تو سرعام اور آواز بلند سے اختلاف رائے کا اظہار کر دیتے تھے۔ 2013ءمیں اُنکی اہلیہ محترمہ کی رخصت زندگی نے اُنہیں بے تحاشا رنج و الم میں مبتلا کر دیا۔ عجب آزاد مرد اور منفرد شخصیت کے حامل اصغر شاد نے زندگی میں کبھی یہ اقرار نہیں کیا تھا کہ اُنکی اہلیہ محترمہ اُن کیلئے کس قدر ناگزیر تھیں۔ اُنکی عادت تھی کہ کبھی بھی اپنے جذبوں کا الفاظ میں کھل کر اظہار نہیں کرتے تھے۔ مگر جلد ہی اُنہوں نے ہم سب دوستوں کے سامنے یہ اقرار کرنا شروع کر دیا کہ میں اپنی بیوی سے شدید محبت کرتا تھا مگر بدقسمتی سے اُسکی زندگی میں اُسکے سامنے اقرار نہ کر سکا۔ اُس نے میرے محدود ذرائع آمدنی سے میرے بچوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کر دیا اس کا ادراک اب مجھے ہوا ہے۔ وہ کہنہ مشق صحافی، ڈرامہ نگار، کالم نگار اور صاحب طرز ادیب تھے۔ اگرچہ اُنہیں اپنے خیالات کو مجتمع کرنے میں کافی محنت کرنا پڑتی تھی مگر اِسکے باوجود اُنہوں نے ٹی وی ڈرامے لکھے۔ سفرنامے تحریر کئے اور سب سے بڑھ کر بے نظیر بھٹو سے دوبئی میں طویل انٹرویو کئے اور اِس پر ایک کتاب بھی مرتب کی۔ 2007ءمیں وہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ یادگاری انٹرویوز کے بعد واپس آنے لگے تو بے نظیر بھٹو نے انہیں کہا کہ ”شاد میں تمہیں پاکستان پہنچ کر ضرور ملوں گی۔ مگر بدقسمتی سے بے نظیر بھٹو جنہوں نے لیاقت باغ پہنچنے سے کچھ وقت پہلے اصغر شاد سے بات کی اور کہا کہ میں تمہارے علاقے میں جلسہ کیلئے آ رہی ہوں۔ انشاءاللہ جلسے کے بعد ملاقات ہو گی مگر اللہ کو منظور نہ تھا۔ بے نظیر کی شہادت نے اصغر شاد کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اور وہ اکثر اِس تاسف کا اظہار کرتے تھے کہ اگر بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو میں اُنکی سیاست اور مصروفیات کے بارے میں بہت کچھ لکھنے کے قابل ہوتا اور اُنکے ساتھ شناخت کا عمل اُنہیں اپنے شعبے میں آگے بڑھنے میں مددگار ثابت ہوتا۔ اصغر شاد نے بابائے صحافت محترم مجید نظامی سے بھی طویل انٹرویوز کے بعد ایک کتاب مرتب کی مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اسکی اشاعت ممکن نہ ہوسکی۔ میری طرف سے قائد محترم مجید نظامی کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں اصغر شاد نے مجید نظامی سے انکی سوانح عمری کے متعلق اپنے غیرمطبوعہ مسودے کے متعلق تبادلہ خیال کیا تھا مگر چونکہ اصغر شاد بے حد کم گو اور عجز و انکساری رکھنے والے انسان تھے اس لیے وہ کبھی کسی کام کی طرف زبردستی پیچھے نہیں پڑتے تھے اس لیے انکی تصنیف کردہ مجید نظامی صاحب کے متعلق کتاب منظر عام پر نہ آ سکی۔ آج جب میں سوچتا ہوں کہ جہاں مجید نظامی اور بے نظیر بھٹو جیسی نامور ہستیاں اس دنیا میں نہیں رہیں۔ وہیں شاد صاحب جیسے عام لوگ جو غریبوں کے دکھ درد بٹانے کیلئے مفت میڈیکل سہولتوں اور فری کھانے کے لنگر کا اپنے دوستوں کی مدد سے اہتمام کرتے تھے آج یہ ہستیاں اس جہان فانی کو چھوڑ کر جاچکی ہیں اور ان کی یادیں ہماری زندگی کا سرمایہ عظیم ہیں مگر وہ لوگ جو انسانیت کی خدمت کیلئے اپنی زندگیوں کو اپنی بساط کے مطابق وقف کیے رکھتے ہیں آسمان ہمیشہ ان کی لحد پر شبنم افشانی کرتا رہتا ہے اور انکے مرقد پر لالہ و گل نمایاں رہتے ہیں۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں
دو سال بیشتر اصغر شاد کے جگر پر ہیپا ٹائٹس سی کا سپاٹ نمودار ہوا ڈاکٹرز نے جگر کے آپریشن کا مشورہ دیا۔ مگر جب بڑے کمرشل ہسپتال جسے ضیاءالحق نے اربوں کی اسلام آباد میں مفت زمین دی تھی کے بے رحم ڈاکٹروں نے 20 لاکھ کا بندوبست کرنے کا کہا تو بجائے اسکے کہ وہ اپنے ان سیاستدان دوستوں سے درخواست کرتا جو آج اسکی مدد اور رہنمائی سے ارب پتی ہیں اس نے آپریشن کروانے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ کبھی نہیں کہا کہ اسکے پاس وسائل نہیں ہیں اسکی مالی مدد کی جائے بلکہ اس نے ہومیوپیتھک علاج شروع کرا دیا۔ اسکے فرماں بردار بیٹے عمران اصغر نے بار بار کہا کہ ابا سب کچھ بیچ دیتے ہیں آپ اپنا آپریشن کروا لیں مگر اصغر شاد اپنی ہٹ کا پکا کہنے لگا کہ میں ٹھیک ہوں مگر ایک دن میرے سامنے پھٹ پڑا کہ میں کیسے اپنے بچوں کے سر کی چھت اور تھوڑے سے مالی مسائل اپنے علاج پر صرف کر دوں۔ زمرد خان اور ڈاکٹر جمال ناصر اس کو جب سرجری کے متعلق آمادہ کرنے کی کوشش کرتے تو وہ کہتا کہ راولپنڈی شہر کے کئی امراءجگر کی سرجری کے بعد بھی تو اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں میں اگر سرجری کرا لوں گا تو اس بات کی کیا ضمانت کہ زندہ رہ سکوں گا۔ حقیقت یہ تھی کہ نہ تو کسی صحافتی تنظیم اور نہ ہی شہر کے وہ ارب پتی سیاستدان جو اصغر شاد کے مرہون منت وزیر، ایم این اے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ انہوں نے اس کی بیماری کو کبھی سنجیدہ ہی نہیں لیا۔ بیماری کے دوران کے دوران کبھی اسکے جگر کے اندر ڈالا ہوا سٹنٹ ٹوٹ جاتا تو کبھی وہ کام کرنا چھوڑ دیتا وہ پھر اسلام آباد کے مہنگے ہسپتال میں شفٹ ہو جاتا۔ ایمرجنسی وارڈ میں کچھ وقت گزارتا اور دوستوں سے ادھار اٹھا کر بل ادا کرتا اور کچھ عرصے کیلئے صحت یاب ہونے کی ایکٹنگ کرتا ہوا اپنے دفتر آ کر بیٹھ جاتا مگر اپنا دکھ ظاہر نہ ہونے دیتا۔ وہ لمحہ بہ لمحہ موت کے سفر پر روانہ تھا، مسلسل وزن کم ہوتا چلا جا رہا تھا مگر وہ بضد تھا کہ وہ ہومیو پیتھک علاج سے صحت مند ہو رہا ہے۔ میں اور جمیل مرزا اُس کو تنگ کرتے تھے کہ تمہاری بیماری کا واحد حل یہ ہے کہ تمہاری شادی کر دی جائے مگر وہ ہمیں دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرتا کہ وہ اپنی مرحومہ بیوی کے علاوہ کسی دوسری خاتون کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ اپنے غموں، تکلیفوں کو دباتے ہوئے جلد از جلد اپنے خاندان کی بہتری کیلئے کچھ کرنے کے جنون میں مبتلا تھا۔ گھر گرا کر دوبارہ بنایا۔ فری رئیلٹی ہسپتال کیلئے اپنی توانائیاں زیادہ سے زیادہ صرف کرنی شروع کر دیں۔ رمضان میں اصغر شاد نے وہاں پر غریبوں کیلئے فری افطار کا بندوبست کا اہتمام شروع کر دیا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ آخری وقت میں اللہ کی رضا اور اپنے بچوں کیلئے کچھ نہ کچھ ممکنہ حد تک کرنے پر تلا ہوا تھا۔ مگر جگر کے کینسر کے ساتھ کہاں تک لڑتا۔ زمرد خاں نواز رضا جیسے مخلص ساتھیوں نے ممکنہ حد تک اسکو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی مگر مرحوم کا ایک خاص اندازِ زندگی تھا وہ اپنی ذات کو نمایاں کرنے کے انتہائی خلاف تھے۔ وہ کسی بھی فنکشن میں پیچھے جا کر بیٹھ جاتے اور اکثر اپنے کالم ”شہر کی بات میں کسی سماجی موضوع کو اُٹھاتے۔ قائداعظم کے نواسے کے پاس گھر نہ ہونے کا ذکر اپنے کالم میں کیا اور زمرد خاں کو یہ تحریک دی کہ وہ قائداعظم کے نواسے کو بیت المال سے گھر لیکر دے۔ زمرد خاں اُنکی کسی بات کو نہیں ٹالتے تھے۔ شہر کے ایک دوسرے کمرشل ہسپتال سے وہی اُسکی نعش اُنکے آبائی محلے گوالمنڈی لےکر آئے۔ انکی ایک کتاب دوستی کا سفر کی تقریب رونمائی کروانے کا مجھے اعزاز حاصل ہوا۔ ناروے اور ڈنمارک کے سفیروں نے اصغر شاد کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں شرکت کی اور اُنہیں خراج تحسین پیش کیا وہ وقت چینل پر ”دیوان عام“ پروگرام بھی کرتے رہے۔ نواز رضا، سلطان سکندر، اسرار احمد، ابرار احمد، عزیز علوی، جاوید خاں جن کا اصغر شاد کے ساتھ گہری دوستی اور پروفیشن کا تعلق تھا انکے جنازہ پر دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ نواز رضا صاحب سے جب میں نے تعزیت کی تو وہ کہنے لگے وہ میرا سب سے زیادہ پیارا دوست تھا۔ اکثر ساتھیوں کے الفاظ جذبات کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ نیشن کے اسرار احمد اور ابرار احمد کی حالت غیر دیدنی تھی وہ غم کے مارے ٹوٹے ہوئے تھے۔ سلطان سکندر کی ویران آنکھیں اپنے ساتھی کیلئے اشک بار تھیں۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ اصغر شاد اپنے دوستوں، ساتھیوں، عزیز و اقارب کے آنسو¶ں میں زندہ حقیقت بن کر دکھائی دے رہا ہے۔
وہ اشک بن کر مری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے