جب نظر ماضی کے دریچے ، گریبان اور ضمیرتک جاتی ہے تو ہم کانپ اٹھتے ہیں۔ حالانکہ ان تینوں درسگاہوں سے ڈرنے کی نہیں سبق سیکھنے کی ضرورت ہے! میرا اس پود سے تعلق ہے جس کے بچپن ہی میں دوسرے بڑے پاکستانی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی کہانی ختم ہوگئی۔ لڑکپن میں ضیائی آمریت کے سوا کچھ نہ تھا۔ عقل کی آمد آمد تھی کہ غیر جماعتی الیکشن 1985 آگیا، ووٹ ابھی بھی نہیں بنا تھا۔ 1988 یا 1990 میں ووٹ ڈالنے کی سعادت حاصل ہوئی تو پھر چل سو چل تاہم زمانہ طالب علمی کے یونین انتخابات کے ووٹ لینے، دینے ، مانگنے، جیتنے اور ہارنے کی ٹریننگ اور خوش قسمتی بہرحال تھی۔۔۔۔ زمانہ طالب علمی سے ن لیگ کی "اقبالیات" یاد آگئی۔ گویا 2 اقبال ایسے ہیں جنہیں ہم ان کے اور اپنے زمانہ طالب علمی سے پسند کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی بتاتا چلوں کہ، بہرحال آج (1) تذکرہ اور کچھ موازنہ مقصود ہے اس ایفیڈرین اور مخدوم شہاب الدین و حنیف عباسی کا۔ (2) الیکشن 18 کے اس منظر کا ذکر خیر بھی کرنا ہے کہ، جس میں ن لیگ کی لفاظی اور حرکات و سکنات پیپلزپارٹی جیسی اور پی ٹی آئی کی قسمت پڑی لیگی لیگی سی ہے۔ (3) مولانا فضل الرحمن و عمران خان و ایاز صادق و پرویز خٹک کو یاد کرانا تھا کہ نوابزادہ نصراللہ کی سیاسی تقریروں کی شائستگی اور فصاحت و بلاغت تو آپ کو یاد ہوگی:
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
گر نہیں یاد ، تو بادام کھایا کریں!
جناب جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس (ر ) قیوم میں کوئی مماثلت ہے یا فرق ؟( یہ قارئین باتمکین پر چھوڑتا ہوں۔) (5) پیپلزپارٹی کے دو سابق وزرائے اعظم کو بھی سپرد قلم کرنا ہے جو مجھے اچھے لگتے ہیں؛ ذکر بلاول بھی بنتا ہے۔ مگر ، ان تفصیلات میں جانے سے قبل پہلے بات مکمل کرلوں 2 عدد اقبال کی۔ دونوں شریف النفس اور محب وطن، دونوں محنتی اور انسانوں سے پیار کرنے والے، دونوں صوم و صلوة کے پابند اور بناو¿ کی سیاست کرنے والے۔ ایک اقبال نارووال کے لئے احسن اور دوسرا اقبال گجرات کے لئے جعفر۔ اگر میں یہ کہوں کہ سابق حکومت کے اڑھائی اچھے وزیروں میں ایک سالم اچھا وزیر احسن اقبال تھا تو غلط نہ ہوگا۔ دوسری جانب ن لیگ کے وفا کے پیکروں اور تنظیمی امور کی روح سے کوئی آشنا تھا تو وہ چوہدری جعفر اقبال (جونئیر) ، شاید محنت کا ثمر تھا یا دیر آید درست آید کہ، جاتے جاتے جعفر اقبال بھی عباسی دورحکومت میں وفاقی وزیر مملکت بن گئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ، الیکشن 2013 میں، ہر طرف میڈیا پر دھوم تھی کہ نارووال میں اپ سیٹ ہوگا اور پروفیسر احسن اقبال کے مقابلہ میں ایک معروف سنگر کامیاب ہوجائے گا۔ واضح رہے ابرارالحق اس وقت ایک سنگر کے علاوہ کچھ نہ تھا تاہم اب اس کا پاو¿ں ضرور لیڈری میں پڑ چکا ہے۔ اسی طرح زمانہ گجرات سے جعفر اقبال کے مقابلہ پر قمر زمان کائرہ کو فاتح قرار دینے کے درپے تھا۔ ہم یہ سب سن کر الیکشن 2013 میں لاہور سے نکلے، قلم و قرطاس تھاما اور نارووال سے گجرات تک کا رخت سفر باندھا۔ ایک حقیقت آگے چل کر بتاو¿ں گا کہ "اقبالیات" کی الیکشن 13 کی تقریروں کی بازگشت میں "ایشیا سبز ہے" والا رنگ کتنا غالب تھا اور آج الیکشن 18 کی تقاریر میں "سرخوں" سا طرز تکلم کتنا ہے !۔۔۔۔ واہ مولا! تیرے رنگ رنگ !!! خیر پھر قبل از انتخابات 2013 میں عرض کیاتھا: " پی ٹی آئی اور پی پی پی کی " جی ٹی روڈ تے بریکاں لگیاں" چشم فلک گواہ ہے پھر بریکیں لگیں بھی۔ بےشک احسن اقبال میرے محترم دوست ہیں اور جعفر اقبال عزیز دوست جہاں بے تکلفی ہے۔ واضح رہے کہ، ن لیگ سے میرا رومانس کبھی نہیں رہا نہ کوئی پی ٹی آئی سے کوئی توقعات ہیں مگر احسن اقبال کی اس خوبی کو ہمیشہ سلام ہے جو قطعی جانبدارانہ نہیں سو فیصد منصفانہ ہے کہ، یہ گالی گلوچ اور تھانہ کچہری والی سیاست نہیں کرتے، کراچی سے خیبر تک کہیں بھی کھڑے ہو کر کہہ سکتے ہیں، لاو¿ نارووال سی تعلیمی و تعمیری ترقی کسی بھی شہر میں دکھادو؟ میں دودن قبل حسب عادت پھر نارووال کا دورہ کرکے آیا ہوں، احسن اقبال سے ملا نہ آنے جانے ہی کا بتایا۔ لیکن یہاں اتنا بتاتا چلوں کہ، احسن اقبال پر ان کے پانچ سال اپنے نوائے وقت کالموں میں سینکڑوں دفعہ تنقید بھی کی۔ لیکن یہ طے ہے کہ ان کے ہاں خوبیاں زیادہ ہیں۔ انہوں نے خواجہ آصف کی طرح اپنا شہر (سیالکوٹ) نظرانداز نہیں کیا اور قصہ مختصر احسن اقبال کی کامیابی کے راستے میں نارووال مجھے کوئی رکاوٹ نظر نہیں آئی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ جعفر اقبال کا بھی ہے گو قمر زمان کائرہ، چوہدری شجاعت حسین و پرویز الٰہی اور پی ٹی آئی والے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ جعفر اقبال کو شکست سے دوچار کریں تاہم میرے تجزیے کے مطابق بظاہر ان تلوں میں تیل دکھائی نہیں دے رہا جو جعفر اقبال سے فتح چھین سکے۔(باقی آئندہ)
یاد ماضی عذاب ہے یارب، حکومت پی پی پی کی تھی اور یوسف رضا گیلانی کو عدالت عظمی نے جب نااہل قرار دیا تو مخدوم شہاب الدین کو وزیراعظم بنایا جانا تھا، میرا ان سے ان دنوں مسلسل ٹیلیفون رابطہ تھا تاہم ان کی ملنے کی دعوت آج تک موخر ہے۔ اور ایسے ہی یکایک "ایفیڈرین" کیس سامنے آگیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ہم نے مانا کہ انصاف کے تقاضوں کو موقع محل دیکھنا چاہئے نہ ملزم کا اتہ پتہ۔ بس فوری فراہمی انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اور اس فوری کا مطلب "فوری" محض الیکشن سے قبل والا نہیں، سدا والا فوری ہے! لیکن ہمیں معلوم ہے 1970 تا حال پیپلزپارٹی کو اس طرح کی چیزوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ لیگوں کو کبھی شک کا فائدہ ملا کبھی جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل کا اور کبھی جمہوری اتحاد کا۔ 1988 سے پنجاب پیپلزپارٹی کیلئے شجر ممنوعہ رہا اور مسلم لیگ ق ، ن لیگ کیلئے ہاٹ کیک۔ حتی کہ 2008 تا 2011 لوگ سٹے آرڈر ہی پر وزارت اعلیٰ کا دورانیہ پورا کرگئے۔ جن کی مدد سے حکومت ملی کمال "ہنرمندی" سے ان کے وزراءکو چلتا کیا۔ ایک طرف بےنظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں بھی لازم تھا کہ، منظور وٹو کو رکھیں یا ہٹائیں مگر وزیر اعلی پنجاب ہوگا تو جونیجو لیگ کے 17 ممبران سے ورنہ مرکز سے بھی گھر جاو¿۔ میں اکثر ایک عرض کیا کرتا ہوں پنجاب سے باہر کے لیڈران کو کھڈے لائن لگایا جاسکتا ہے اور بائیں بازو کو بھی مروڑا جاسکتا ہے لیکن جب بھی اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے لیڈران بشمول نواز شریف اور عمران خان یا دائیں بازو کو مروڑے گی تو خود بھی بند گلی کی یاترا کرنی پڑے گی، اور ایسا صاف شفاف دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری ایک اس بات کی سمجھ بھی نہیں آئی 1985، 1990، 1997، 2008 اور 2013 کے محسنوں سے احسان فراموشی کی آخر ضرورت کیا تھی؟ بےجا غصے، اپنے ممبران اسمبلی سے دوری، تکبر اور بھارت سے دوستی میں بدل سے گزرنے کی ضرورت کیا تھی؟ بنا بنایا کھیل بگاڑ کر فیشن کے طور پر تازہ بیانئے کی ضرورت کیا تھی؟ بھائی اور باصلاحیت اور وفادار ساتھیوں کے ہوتے ہوئے یکایک مریم نواز کی سیاسی دستاربندی کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ بسے بسائے اور بنے بنائے سیٹ اپ پرخود ہی شب خون مارنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ بند گلی کیا، قائد تو دیوار سے راستے بنانے کے صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے! ہم اتنا کہتے ہیں کہ، میاں صاحب اگر اپنی پارلیمنٹ کی حاضری ہی کو یوسف رضا گیلانی کی طرح باقاعدہ اور اپنے ممبران سے روابط کو دوام بخشتے تو یہ دن نہ آتے۔ ہم نے کراچی سے تعلق رکھنے والے 2013 میں کراچی سے سیٹ نکالنے والے عبدالحکیم بلوچ سے پوچھا کہ آپ نے بیک وقت وزارت مملکت اور ن لیگ کیوں چھوڑے؟ اس کا جواب تھا کہ ہم پیپلزپارٹی چھوڑ کرن لیگ میں گئے لیکن ن لیگ کی قیادت پیپلزپارٹی کی طرح ممبران پارلیمنٹ اور ساتھیوں کو عزت نہیں دیتی، اور وہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد پھر اسمبلی پہنچ گیا۔ ن لیگ کے ممبران اسمبلی نے خود مجھے کہا کہ عبدالحکیم بلوچ کا واپس جانا قیادت کی کوتاہی تھی کراچی کے بندے کو ہولڈ رکھنا چاہئے تھا۔ میاں نواز شریف کے چاہنے والے جب کہتے ہیں کہ، میاں نواز شریف کا بیانیہ بڑا تکا ہے تو ہم کہتے ہیں پرویز رشید، مشاہد اللہ اور نہال و طلال و دانیال نے ان کے پاس چھوڑا ہی کیا تھا، گویا وہ الیکشن 18 میں یہ بھی نہ رکھتے تو کیا رکھتے؟
الیکشن 18 بلاول بھٹو زرداری کے لئے آئندہ کیلئے اچھی نیٹ پریکٹس ثابت ہوا ہے۔ بلاول کی شائستگی اور عزم سب لیڈران پر غالب رہا جو ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ کاوش قابل ستائش تھی تاہم پنجاب کے دو اور حلقوں میں جو میں نے بطور خاص جا کر دیکھا ، ملتان سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی انتخابی صورت حال بہت بہتر ہے، اسی طرح سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف گوجر خان میں فتح کے قریب تر ہیں۔ سنا ہے جھنگ سے فیصل صالح حیات اور رحیم یار خان سے سابق گورنر مخدوم احمد محمود کے صاحبزادے اور مخدوم شہاب الدین اپنے حلقے جیتنے کی پوزیشن میں ہیں اور مظفر گڑھ سے غلام ربانی کھر کی پوزیشن بھی بہتر ہے۔ بلاول بھٹو ذہن نشین رکھے بس پنجاب سے یہی کچھ حاصل کرلیں تو غنیمت جانیں۔ پیپلزپارٹی کے یہ متذکرہ بالغ نظر لوگ اگر قومی اسمبلی میں پہنچتے ہیں تو خاصا توازن بخش پارلیمانی کلچر محسوس ہوگا۔۔۔۔ چلتے چلتے الیکشن 2018 کے تناظر میں اتنا کہہ دوں۔ کوئی جتنا بڑا لیڈر ہے یا جتنا بڑا اپنے آپ کو جمہوریت پسند گردانتا ہے اگر اس کی نظر ماضی کے دریچے ، گریبان اور ضمیر میں نہیں جاتی اور ان تینوں درسگاہوں سے سبق نہیں سیکھتا ، تو کیا وہ کرے گا جمہوریت کا، اور کیا دے گا۔ الیکشن 18 کے بعد؟؟۔