کابل(آن لائن+ اے ایف پی) نائب افغان صدر عبدالرشید دوستم پر کابل ایئرپورٹ پر خودکش حملہ ہوا جس میں 16 افراد ہلاک اور 60 زخمی ہوگئے تاہم نائب صدر اس حملے میں محفوظ رہے۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کے نائب صدر عبد الرشید دوستم ترکی میں جلا وطنی ترک کر کے حامد کرزئی ایئرپورٹ کابل پہنچے جہاں اعلیٰ حکام اور حامیوں کی بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا تاہم جیسے ہی نائب صدر کا قافلہ اپنی منزل کی جاب روانہ ہوا ایک زوردار دھماکے سے فضا گونج اٹھی۔ دھماکا اتنا زوردار تھا کہ ایئرپورٹ کے تمام شیشے ٹوٹ گئے اور ہر طرف افرا تفری مچ گئی۔ ریسکیو ادارے نے امدادی کاموں کا آغاز کردیا ہے۔ 60 سے زائد زخمیوں کو ہسپتال داخل کیا گیا ہے جن میں سے 12 کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔ اسپتال انتظامیہ نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کی درخواست پر عبدالرشید دوستم ترکی میں ایک سال سے زائد عرصے کی جلاوطنی کی زندگی ختم کرکے کابل پہنچے ہیں۔حالیہ ہفتوں میں شمالی افغانستان کے بعض شہروں میں دوستم کے حامیوں نے اْن کی وطن واپسی کے لیے کئی مظاہرے کئے تھے۔ طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو نکیل ڈالنے کے لیے بھی اشرف غنی اپنے حلیف عبدالرشید دوستم کی واپسی کے خواہاں تھے۔ ازبک جنگجو عبد الرشید دوستم پر 2001 میں 2 ہزار سے زائد طالبان قیدیوں کے بہیمانہ قتل عام اور شدید جنگی نوعیت کے الزامات کا سامنا تھا۔ 2009 میں اس وقت کے امریکی صدر بارک اوباما نے تفتیشی کمیٹی بھی قائم کی تھی تاہم اس کمیٹی کی رپورٹ تاحال منظر عام پر نہیں آ سکی ہے۔ اس شدید عالمی دبا ئو نے دوستم کو جلاوطنی پر مجبور کر دیا تھا۔ 2014 میں موجودہ صدر اشرف غنی نے انہیں افغانستان کا پہلا نائب صدر منتخب کیا لیکن نومبر 2017 میں ایک اسپورٹ ایونٹ میں دوستم نے اپنے سیاسی حریف احمد اسچائی کو مکا رسید کیا۔ بعد ازاں دوستم نے احمد اسچائی کو اغواء کر کے ایک ہفتے تک تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ان الزامات پر رشید دوستم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ 2017 کو اچانک ترکی چلے گئے تھے۔