عمران خان، بلاول بھٹو زرداری اور میاں شہبازشریف کے فیصل آباد کے انتخابی دورے

وزیراعلیٰ حسن عسکری کو مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے لیڈروں کی طرف سے تحریک انصاف کے مقابلے میں برابر مواقع نہ ملنے کی شکایت
فیصل آباد شہر اور ضلع میں مسلم لیگ(ن) کو 25جولائی کو تحریک انصاف پر فوقیت حاصل ہو گی
قومی اسمبلی کی 10 میں سے کم از کم 2نشستوں پر ’’آزاد امیدوار‘‘ کامیاب ہو سکتے ہیں
بلاول بھٹو کے دورے سے پیپلزپارٹی کے کارکنوں میں بھی بیداری پیدا ہوئی، قومی یا صوبائی اسمبلی کی ایک دو نشستیں پیپلزپارٹی کو مل سکتی ہیں
تحریروترتیب۔ احمد کمال نظامی
بیوروچیف نوائے وقت فیصل آباد
آج کل پورا ملک انتخابی بخار میں مبتلا ہے اور تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت مختلف شہروں اور اہم انتخابی معرکوں کے علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں خصوصی طور پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پارٹی کی انتخابی مہم کو بالکل ’’مارتھن ریس‘‘ کی طرح بنا دیا ہے۔ ایک ایک دن میں تین سے چار شہروں میں انتخابی جلسوں کا انعقاد کر کے انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کی ٹاپ لیڈرشپ کو بھی ملک گیر دوروں پر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ 25جولائی کو ہونے والے انتخابات میں کون کس کو ووٹ دے گا، کس امیدوار کے مقابلے میں کون کھڑا ہے، کس کس کے ساتھ مقابلہ ہے اور لوگوں کی اکثریت کس کے ساتھ ہے۔ ہر پارٹی کی صف اول کی قیادت کے علاوہ خود مختلف جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈرز اپنے اپنے حلقوں میں ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم چلا رہے ہیں لیکن پارٹیوں کی مرکزی قیادت اور امیدواروں کی اپنی ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم کے باوجود ملک کے 90فیصد ووٹرز اپنا ذہن بنا چکے ہیں، جس کو ’’شیر‘‘ کے نشان پر مہر لگانی ہے وہ میاں محمد نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو نیب کورٹ سے ملنے والی قید کی سزا کے باوجود یہ رائے رکھتا ہے کہ نوازشریف کو انتخابات سے باہر رکھنے کے لئے مقدمات بنائے گئے جس کی وجہ سے ملک کے ترقیاتی کام جو تیزی سے جاری تھے وہ رک گئے ہیں اور مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دوراقتدار کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ پر کسی حد تک قابو پانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور مسلم لیگ کا ووٹر یہ بھی ریزن بیان کرتا ہے کہ نوازشریف نے پاکستان کو ایٹمی دھماکے کر کے اس کے دفاع کو مضبوط بنایا اور چین سے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبے سی پیک کی بنیاد رکھی۔ مسلم لیگی ووٹر یہ بھی رائے دیتا ہے کہ نوازشریف کو اقتدار سے الگ کرنے کے لئے پانامہ کیس پر اقامہ رکھنے کی سزا دے کر نااہل کیا گیا اور پانامہ میں نام آنے کے باوجود عمران خان کو صادق اور امین قرار دے دیا گیا۔ جنرل مشرف نے جس طرح مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء لگایا تھا مسلم لیگی ووٹروں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ مارشل لاء تو نہیں لگایا گیا لیکن خفیہ ہاتھوں کے ذریعے انہیں اقتدار سے چلتا کیا گیا ہے اور لگتا ہے کہ انہیں اسی وجہ سے سزا دی گئی ہے۔ حالانکہ میاں نوازشریف کو 6جولائی کو نیب میں ان کے خلاف دائر تین ریفرنسز میں سے لندن میں موجود ان کے بچوں کی پراپرٹی پر زیرسماعت ریفرنس میں دس سال، ان کی صاحبزادی کو 7 سال اور ان کے داماد کو ایک سال کی سزاؤں کے علاوہ دس ملین پونڈ جرمانہ کی سزائیں سنائی گئیں۔ ان کے داماد کیپٹن(ر) محمد صفدر کے علاوہ میاں محمد نوازشریف اور مریم نواز اس وقت ملک سے باہر تھے۔ وہ اگر چاہتے تو پانچ دس سال تک ملک میں واپس نہ آنے کا فیصلہ کر سکتے تھے کہ میاں محمد نوازشریف کو تو نہ صرف سپریم کے فیصلوں کے مطابق دس سال تک کی نااہلی کا سامنا تھا بلکہ احتساب عدالت کے 6جولائی کے فیصلے میں بھی انہیں اور ان کے ساتھ مریم نواز اور کیپٹن محمد صفدر کو بھی اقتدارکے ایوانوں کے لئے الیکشن میں جانے سے روک دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ 13جولائی کی شام کو لاہور ایئرپورٹ پر اترے اور انہوں نے احتساب عدالت کے 6جولائی کے فیصلے کے مطابق خود کو احتساب پولیس کے حوالے کر دیا اور انہیں اسی رات اسلام آباد میں اڈیالہ میں پہنچا دیا گیا۔ اس روز مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین میاں محمد شہبازشریف نے ملک بھر کے ٹکٹ ہولڈرز کو زیادہ سے زیادہ کارکنوں کو پارٹی قائد کے استقبال کے لئے لاہور پہنچنے کا کہہ رکھا تھا لیکن زیادہ تر شہروں کی پارٹی قیادت اور ٹکٹ ہولڈرز لاہور پہنچنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کر سکے۔ اگر اس سلسلہ میں لاہور پہنچنے کے لئے دلوں میں اخلاص ہوتا تو یہ لوگ 12جولائی کو ہی لاہور میں پہنچ جاتے۔ سڑکوں پر ناکے اور ٹکٹ ہولڈرز کی پکڑ دھکڑ نے پورے ملک میں خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا تھا اور ایسے ٹکٹ ہولڈرز کی بھی کمی نہیں ہے جو اپنا اپنا الیکشن بچانے کے لئے بیوروکریسی سے متصادم نہیں ہونا چاہتے تھے لہٰذا اس روز ان کے ٹیلی فون زیادہ تر بند رہے اور وہ اپنے اپنے انتخابی ڈیروں اور گھروں سے بھی غائب رہے۔ لاہور میں مسلم لیگیوں کی خاطر خواہ تعداد کے پہنچ جانے کے باوجود میاں محمد شہبازشریف کی قیادت میں مسلم لیگ(ن) کی ریلی میاں محمد نوازشریف کی فلائٹ میں تین گھنٹے کی دیری کے باوجود لاہور ایئرپورٹ پر پہنچ کر اس کے جنگلے توڑ کر اپنے قائد کو ایئرپورٹ سے باہر نہیں لا سکے اور اب سیاسی مبصرین کی طرف سے یہ تبصرے کئے جا رہے ہیں کہ میاں محمد نوازشریف اور مریم نواز کی لندن سے واپسی کے مقاصد پورے ہوئے ہیں۔ کیا مسلم لیگ(ن) کی انتخابی مہم کو ان کے گرفتار ہونے سے تیزی حاصل ہوئی ہے اور کیا ان کی جیل یاترہ سے عوام کے دلوں میں لیگی قیادت کے لئے ہمدردی کی کوئی لہر دوڑی ہے یقینا اس کے بہتر اثرات مرتب ہوئے۔ میاں محمد نوازشریف اورمریم نواز پاکستان میں واپس آنے کی بجائے لندن میں رہ کر وہاں سے مختلف شہروں میں لیگی کارکنوں کے جلسوں سے خطاب کر کے ان کا لہو گرماتے تو مسلم لیگ(ن) 25جولائی کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیت سکتی تھی اور مسلم لیگ(ن) کے بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آنے سے لیگی قیادت کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے حق میں ’’مکالمہ‘‘ کرنے کے بہتر مواقع مل سکتے تھے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ملک میں موجود لیگی قیادت نے میاں محمد شہبازشریف سمیت مسلم لیگ کی انتخابی مہم میں اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اور میاں محمد نوازشریف و مریم نواز کے بیانیہ سے بچ کر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ مفاہمانہ طرزعمل اختیار کرنے کے لئے عمداً 13جولائی کو ایئرپورٹ نہ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس بات کا اظہار سابق وزیرخارجہ خواجہ آصف کے ایک بیان میں سامنے آ چکا ہے کہ اس روز ایئرپورٹ جانے کا فیصلہ ہی نہیں کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ(ن) کو میاں محمد نوازشریف اور مریم نواز کے بیانیہ سے ہٹ کر اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی ترک کرتے ہوئے انتخابات میں جانا پڑا ہے۔ اس سلسلے میں دو رائے پائی جاتی ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ اس سے مسلم لیگ کے بینک ووٹ میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ بعض کی رائے میں ایسا نہیں ہوا لیکن فیصل آباد میں قومی اسمبلی کی دس اور پنجاب اسمبلی کی اکیس نشستوں کی انتخابی مہم اور عوامی سروے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اب بھی پنجاب کے اکثر علاقوں میں سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اس وقت عام تاثر یہ ہے کہ الیکشن 2018ء میں تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ پارٹی ہے جبکہ اڈیالہ جیل سے آنے والی آوازوں کے مطابق آزاد امیدواروں کا جیپ گروپ اسٹیبلشمنٹ کا اصل گھوڑا ہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ انتخابات کے پیچھے خفیہ ہاتھ تحریک انصاف کے امیدواروں کی غائبانہ امداد کرنے کی بجائے جیپ گروپ کے آزاد امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لئے کوشش کرے گا کیونکہ ان خفیہ ہاتھوں کو معلوم ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کو مرکز یا بعض صوبوں میں حکومت بنانے کے لئے پیپلزپارٹی یا ایم ایم اے کو اتحادی بنانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور پھر ان خفیہ ہاتھوں کی طرف سے 25جولائی کو تحریک انصاف کی حمایت کرنے کا الزام لینے کا بھی حوصلہ نہیں ہے لہٰذا 25جولائی کے انتخابات میں تینوں بڑی جماعتوں کے علاوہ پنجاب اور صوبہ خیبر پی کے میں آزاد امیدواروں، سندھ میں ڈیموکریٹک الاـئنس اور کراچی میں مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی کو زیادہ سے زیادہ اسمبلیوں میں لانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ ان سب کی مدد سے تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کی کوشش کی جائے اور دوسری طرف ایک خیال یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت میں سے میاں محمد شہبازشریف، خواجگان، احسن اقبال اور بعض دوسرے ارکان اسمبلی کو نیب عدالتوں کے ذریعے جیلوں میں بھجوا کر چوہدری نثار علی خاں کی قیادت میں مسلم لیگ(ن) کو ایک مرتبہ پھر اقتدار میں لایا جائے گا اور ایسی حکومت کے لئے چوہدری نثار علی خاں کو قاـئد مسلم لیگ(ن) میاں محمد نوازشریف کی آشیرباد حاصل ہو گی اور چوہدری نثار علی خاں آئندہ پانچ برسوں کے دوران مسلم لیگ(ن) کے قائد اور ان کی بیٹی کے خلاف نہ صرف تمام مقدمات ختم کرائیں گے بلکہ ان دونوں کے خلاف نااہلی کے معاملات بھی باقی نہیں رہیں گے اور الیکشن 2013ء میں میاں محمد نوازشریف پس منظر میں رہ کر مریم نواز کو وزیراعظم بنانے کی کوشش کریں گے۔ یہ سب کچھ مختلف سیاسی حلقوں کی قیاس آرائیاں ہیں لیکن ان دنوں تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی فرنٹ لائن قیادت شہر شہر انتخابی جلسوں سے خطاب کر کے اپنے اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہفتہ رفتہ کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری فیصل آباد کے انتخابی دورے کر چکے ہیں ۔ مسلم لیگ(ن) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف بھی اپنی انتخابی مہم چلائے ہوئے ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ سب کی چھٹی لاڈلے کو کھلی چھٹی، ایسا نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ نیازی کے جلسے کی کرسیاں اس کے دماغ کی طرح خالی ہیں اور یہ جھوٹا شخص ہے، جھوٹ بولتا ہے، گالیاں دیتا ہے اور عوام جھوٹے شخص کو وزیراعظم نہیں بنا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) میں عوام کی خدمت کی، قربانیاں دیں، جدوجہد کی، گاؤں گاؤں شہر شہر ترقیاتی منصوبے مکمل کئے، سڑکیں بنائیں، بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا، میٹرو بسیں چلائیں اور اورنج ٹرین چلائی، سی پیک کا منصوبہ لائے اور پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا، موٹروے بنائے گئے اور نوازشریف نے عوام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ملک کو ترقی دی جس کی انہیں اور ہمیں سزا دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 30ارب روپے سے لاہور میں میٹرو کا منصوبہ مکمل کیا مگر پشاور میں خان صاحب 70ارب روپے کے باوجود میٹرو کا منصوبہ مکمل نہ کر سکے اور وہاں میٹرو کی بجائے کھنڈرات نظر آ رہے ہیں۔ پشاور کے عوام کو کھنڈرات کی وجہ سے تکلیف کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پی کے میں عمران خان کی حکومت نے پانچ سال کے دوران ایک بھی منصوبہ مکمل نہیں کیا اور وہاں عوام اس مرتبہ تحریک انصاف کو شکست دے کر خیرباد کہہ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں بھی شیر دھاڑے گا اور عوام مسلم لیگ کو ووٹ دے کر کامیاب کروائیں گے۔ میاں شہبازشریف نے کہا کہ نوازشریف چاہتے تو باہر بیٹھ سکتے تھے مگر انہوں نے محب وطن اور پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی گرفتاری پیش کی حالانکہ ان کا پانامہ میں نام نہیں تھا لیکن اس کے باوجود انہیں سزا دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے پہلی رات جیل میں فرش پر کاٹی۔ انہیں والدہ سے ملنے تک نہیں دیا گیا یہ کہاں کا انصاف ہے۔ شہبازشریف نے کہا کہ 25جولائی کو عوام اس ظلم و زیادتی کے خلاف ووٹ دیں گے اور شیر دھاڑے گا مخالفین کی چیخیں نکل جائیں گی۔ جبکہ مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں محمد شہبازشریف بھی میرا یہ انتخابی و سیاسی فیچر نوائے وقت کی زینت بننے تک فیصل آباد میں اپنا انتخابی دورہ کرنے آ چکے ہوں گے۔ قومی اسمبلی کی 10 اور پنجاب اسمبلی کی 21 نشستوں کا یہ ضلع صوبائی دارالحکومت لاہور کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں میں سب سے زیادہ نمائندگی رکھنے والا ضلع ہے۔ عمران خان نے اس ہفتے ضلع جھنگ کا بھی انتخابی دورہ کیا اور فیصل آباد کے اقبال پارک دھوبی گھاٹ میدان میں بھی تحریک انصاف کے چاہنے والوں کا خوب لہو گرمانے کی کوشش کی۔ ان کا یہ جلسہ ان کے ماضی کے جلسوں کے مقابلے میں حاضرین کے اعتبار سے اتنا کامیاب جلسہ نہیں تھا اور اس میں ورکروں کی تعداد اس طرح نہیں تھی جس طرح ماضی میں عمران خان کی آمد کے موقع پر ہوا کرتی تھی اس میں ٹکٹوں کی تقسیم اور پارٹی میں گروپ بندی کے عنصر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ایک بات طے ہے کہ ان کا جھنگ شہر اور فیصل آباد کے انتخابی جلسے بہت زیادہ کامیاب نظر نہیں آئے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جتنے لوگ عمران خان کے جھنگ اور فیصل آباد کے دوروں پر گھروں سے نکلے لگ بھگ اتنے لوگوں نے چنیوٹ اور فیصل آباد میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا بھی یقینا استقبال کیا ہے۔ عمران خان نے سب سے زیادہ سابق صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ خاں کے ان کے اس بیان پر رگیدا کہ جو انہوں نے 13جولائی کو میاں محمد نوازشریف کے لاہور ایئرپورٹ کے استقبال کے لئے نکلنے کے لئے لیگی کارکنوں کو مخاطب کر کے کہا تھا۔ ان کے الفاظ تھے ’’میاں محمد نوازشریف کا استقبال لیگی کارکنوں کے لئے استقبال حج سے زیادہ اہم ہے‘‘۔ اس بیان پر مذہبی حلقوں سمیت پاکستان بھر کے حلقوں میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ رانا ثناء اللہ نے ایسے الفاظ استعمال کر کے ایسا جرم کیا ہے جس پر الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا چاہیے۔ رانا ثناء اللہ خاں اور عمران خان دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں اچھے بھلے کارکنوں میں اپنی اپنی مقبولیت کا واضح طور پر لوہا منواتے منواتے کوئی نہ کوئی ایسی حرکت یا ایسا بیان دے دیتے ہیں جو ان کی سیاسی بصیرت کے لئے سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ عمران خان نے جس طرح نوازشریف کی لاہور آمد پر استقبال کرنے والے مسلم لیگی کارکنوں کو گدھا قرار دیا، یہ الفاظ انہوں نے فیصل آباد میں دہرائے اور کہا کہ جن لوگوں نے نوازشریف کا استقبال کیا وہ انسان نہیں گدھے تھے۔ جہاں تک رانا ثناء اللہ کا تعلق ہے وہ ہمیشہ بیان دے کر نہ صرف مذہبی بلکہ عوامی حلقوں میں بھی تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ رانا ثناء اللہ خاں نے جب ’’ختم نبوت‘‘ کے قانون یں تبدیلی کی کوششوں کے حوالے سے مسلم لیگ(ن) کے خلاف باتیں ہونے لگیں تو انہوں نے ایک چینل پر بیٹھ کر یہ کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں اور قادیانیوں میں بظاہر کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ بھی مساجد میں نمازیں ادا کرتے ہیں، قرآن پاک پڑھتے ہیں اور مسلمانوں کی طرح تمام مذہبی شعائر پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ لہٰذا ان میں اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ یہ کہتے وقت بھول گئے کہ رسول پاکﷺ کو اللہ کا آخری نبی تسلیم کئے بغیر کسی مسلمان کا ایمان مکمل نہیں ہے اور اب انہوں نے اپنے پارٹی قائد کے استقبال کو اسلام کے پانچ ارکان میں سے پانچویں رکن ’’حج‘‘ کے استقبال پر فوقیت دینے کی بات کر کے اپنے خلاف نیا پنگھوڑہ بکس کھول لیا ہے۔ بلاول زرداری بھٹو کا کہنا ہے کہ کٹھ پتلی اتحاد کی کوششیں ہو رہی ہیں، عمران خان کی غلط فہمی ہے کہ وہ وزیراعظم بن جائیں گے۔ نیا میثاق جمہوریت الیکشن کے بعد کرنے کی کوشش کریں گے۔ کالعدم تنظیموں کا الیکشن لڑنا جمہوریت کی توہین ہے اور جیالے لڑنے کے لئے پرجوش ہیں۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ لاڈلے تو جلسے جلوس کرنے کی اجازت ہے مگر پیپلزپارٹی سمیت مختلف جماعتوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے ہمیں جلسے کرنے اور ریلی نکالنے سے روک دیا گیا ہے، یہ کیسے الیکشن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اتنے ہی مقبول ہیں تو اتنی سہولتیں دینے کی کیا ضرورت ہے۔ کٹھ پتلی اتحاد بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جیالے لڑنے کے لئے پرجوش ہیں۔ پہلے بھی مشکل وقت کا سامنا کر چکے ہیں اور اب بھی مشکل وقت کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی آمر کی پیداوار ہے۔ خان صاحب کی غلط فہمی ہے کہ وہ سازشیں کر کے وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان صاف اور شفاف الیکشن سے ڈرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی کارکنوں کو گدھا کہنا جمہوریت کی توہین ہے اور سیاسی کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنائے جانا ان کے جمہوری حق سے روکنے کے مترادف ہے۔ نوازشریف کا ٹرائل ہم پہلے بھی کہہ چکے اب بھی کہتے ہیں کہ کھلی عدالت میں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے ہم ظلم و زیادتی اور جبر کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔ الیکشن کمیشن منصفانہ الیکشن کے لئے اپنا رول اور کردار ادا کرے۔ عوام کٹھ پتلی کی طرح اب نہیں ناچیں گے۔ عمران خان اپنی ناشائستہ زبان کے ذریعے سیاست دانوں کی کردارکشی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے تحریک انصاف کا کارکن اب آہستہ آہستہ ان سے نالاں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ تحریک انصاف میں پورے پاکستان کے لوٹوں کو اکٹھا کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے جن گندے انڈوں کو نکالا عمران خان نے انہیں ٹکٹ دے دیئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کا منشور عوام کی خدمت اور بینظیر بھٹو کے فلسفے پر چلتے ہوئے ہم مثبت سیاست کر رہے ہیں۔ بینظیر بھٹو کا نامکمل مشن پورا کریں گے۔ انہوںنے کہا کہ گالی گلوچ کی سیاست گندی سیاست ہے عوام اس بازاری سیاست اور بازاری زبان کو پسند نہیں کرتے اور اس کا جواب 25جولائی کو عوام عمران خان کو دیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی اپنے دورہ فیصل آباد میں اپنے مداحوں کو گھروں سے نکالنے میں بہت حد تک کامیاب رہے۔ اگر پیپلزپارٹی نے بلاول بھٹو کو چھ ماہ پہلے انتخابی مہم پر نکلنے کی راہ دکھا دی ہوتی تو اس وقت پنجاب جیسے بڑے صوبے میں صرف مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں میں ہی ون ٹو ون انتخابی مقابلوں کی کیفیت نہ ہوتی بلکہ پورے پنجاب میں ہونے والی انتخابی لڑائی ایک طرح سے سہ مکھی جنگ بن چکی ہوتی اور پیپلزپارٹی ماضی کے انتخابات کی طرح ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آ چکی ہوتی۔ بلاول بھٹو زرداری کا فیصل آباد کا دورہ فیصل آباد شہر اور ضلع میں ہونے والے انتخابی معرکوں پر بہت زیادہ اثرانداز نہ ہو سکے لیکن پیپلزپارٹی کے این اے 101 سے قومی اسمبلی کے امیدوار طارق محمود باجوہ ، این اے 103 کے شہادت علی خاں بلوچ، این اے 104 کے رانا فاروق سعید اور این اے 106 کے چوہدری سعید اقبال ایسے امیدوار ہیں جو پہلے کسی نہ کسی دور میں قومی اسمبلی کے رکن رہ بھی چکے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے ساتھ سہ مکھی جنگ کا فاتح بن کر بھی سامنے آ سکتا ہے۔ اس وقت جب یہ فیچر نوائے وقت کی زینت بنے گا میاں محمد شہبازشریف کا دورہ فیصل آباد بھی جاری ہو گا۔ ان کے الیکشن 2013ء کے قومی اسمبلی کے ارکان، قومی اسمبلی میں سے این اے 101 کے کرنل غلام رسول ساہی سیاست سے ریٹاـئر ہو چکے ہیں اور ان کا بیٹا ظفر ذوالقرنین ساہی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں ہے۔ ساہی برادران کے متعلق یہ بات عام ہو چکی ہے کہ وہ سیاسی لوٹے بن چکے ہیں۔ انہو ںنے الیکشن 2002ء مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر لڑا اور جیت گئے۔ الیکشن 2008ء مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر لڑا لیکن پیپلزپارٹی کے امیدواروں سے ہار گئے۔ الیکشن 2013ء مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کے طور پر لڑا اور اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔ اب پاکستان تحریک انصاف کا طوطی بولتے دیکھا تو جاتی امراء کو چھوڑ کر بنی گالا میں پہنچ گئے اور عمران خان جن کا دعویٰ ہے کہ وہ موروثی سیاست کا خاتمہ کریں گے انہوں نے ایک ہی گھر میں چک جھمرہ کی قومی اور دونوں صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ دے کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ جو کہتے ہیں اس پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ مسلم لیگ(ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری عاصم نذیر کا دعویٰ ہے کہ وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے مسلم لیگ(ن) کے صوبائی امیدواروں کو بھی ان کے مدمقابل کامیاب کرائیں گے اور خود بھی ظفر ذوالقرنین ساہی کو شکست دیں گے اور انہیں تحریک انصاف کے ان نظریاتی کارکنوں کی بھی حمایت حاصل ہے جن کو پارٹی ٹکٹ کے لئے ’’لوٹوں‘‘ کے مقابلے میں نظرانداز کیا گیا۔ مسلم لیگ(ن) کا ایک رکن اسمبلی رجب علی خاں بلوچ اللہ کو پیارا ہو گیا اس کی جگہ اس کا چھوٹا بھائی گوہر بلوچ پارٹی کا این اے 103 کا امیدوار ہے اور بظاہر وہ بھی اپنے مدمقابل امیدواروں سے جیت رہا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کا ایک اور کارکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار احمد جٹ بھی تحریک انصاف کو پیارا ہو گیا تھا۔ سابق صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ خاں کے مقابلے میں این اے 106 کا الیکشن لڑ رہے ہیں اور اس حلقے میں بھی کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔ سابق وزیرمملکت عابد شیرعلی اور سابق رکن قومی اسمبلی میاں عبدالمنان کو بھی اپنے تحریک انصاف کے حریفوں میاں فرخ حبیب اور فیض اللہ کموکا پر برتری حاصل ہے جبکہ اکرم انصاری اور رانا محمد افضل کو تحریک انصاف کے خرم شہزاد اور راجہ ریاض احمد کے ساتھ قدرے مشکلات کا سامنا ہے۔ ضلع فیصل آباد سے مسلم لیگ(ن) کو 10 میں سے قومی اسمبلی کی پانچ، تحریک انصاف کو تین، تین بڑے آزاد امیدواروں عاصم نذیر، مسعود نذیر اور عارف محمود گل میں سے کم از کم دو نشستوں پر آزاد امیدواروں کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور ایک نشست پیپلزپارٹی یا متحدہ مجلس عمل کو بھی جا سکتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب حسن عسکری نے اپنے دورہ فیصل آباد میں انتخابی انتظامات کا جائزہ لیا اور انہیں فیصل آباد سے یہ شکایت بھی ملی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور میاں محمد شہبازشریف کو پنجاب حکومت پر تمام جماعتوں کو مساوی مواقع فراہم نہ کرنے کا شدید گلہ ہے۔ انہوں نے یقین دلایا ہے کہ حکومت انتخابات غیرجانبدار ہے اور کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...