ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو جو مشکل مراحل در پیش ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اور مشکل ہوتے جائینگے۔ جب تحریکِ انصاف نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی تو انکے پاس شاید نوکر شاہی کی درستگی اور اقتصادیات بہتر کرنے کے منصوبے موجود تھے ،لیکن انکی دال نہیں گل پائی۔ اسد عمر جیسے وزیرِ خزانہ نے دو منی بجٹ بنائے لیکن وہ منفی بیلنس آف پیمنٹ کو کنٹرول نہیں کر سکے۔اسے عجلت کہا جائے یا اقتصادی ٹیم کی نا اہلی کہ پاکستان نے 1980سے اب تک کے تیرہویں بیل آئوٹ پیکج کیلئے استدعا کی۔ دوسری جانب وزارتِ تجارت بھی برآمدی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔بیلنس آف پیمنٹ میں تفاوت بڑھتی گئی ۔ ایکسپورٹ ،تجارتی اور صنعتی اداروں کو دیے جانیوالے ٹیکس کے مفادات نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔ تحریکِ انصاف کی حکومت میں برآمدات انتہائی حد تک کم ہو گئیں ،برآمدات کی کمی کے ساتھ ساتھ سرمایہ باہر چلا گیا اور روپے کی قدر میں کمی بڑھتی چلی گئی۔ ڈالر کے بر خلاف پاکستان کی کرنسی میں کمی 30فیصد تک دیکھنے میں آئی۔شیکسپیئر کے بقول ’’ڈنمارک میں سب اچھا نہیں ہے‘‘۔ان تمام تر منفی رجحانات کی وجہ سے حکومت کو اپنی اقتصادیات کوبرقراررکھنے کیلئے آئی ایم ایف سے لیے گئے 5.8ارب ڈالر کے پیکج کا سہارا لینا پڑا ۔ آئی ایم ایف نے ہدایات جاری کیں کہ حکومت کو ایک ایمرجنسی منصوبہ جاری کرنا پڑیگا جس سے ٹیکسو ں کی شرح بڑھے اور اقتصادی خسارے کو بلاواسطہ اور بلواسطہ ٹیکس لگا کر پورا کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کو دی جانے والی سبسڈیز ختم کر دی گئیں۔ اسد عمر کے بعد حماد اظہر کو بھی ہٹا دیا گیا۔ شبر زیدی کو ایف بی آر کا چیئرمین لگا دیا گیا۔ زیدی صاحب نے ،جو ایک اکائونٹنٹ ہیں، بڑی بے رحمی سے ٹیکس بڑھا نے کا بڑا ہی جارحانہ منصوبہ پیش کر دیا۔ یہ دیکھا گیا کہ آبادی کا صرف ایک فیصد بلاواسطہ ٹیکس دیتا ہے۔ تاجر، پرچون فروش، اور دوکاندار جو کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ جیسے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیںوہ یا تو ٹیکس دیتے ہی نہیں یا سرِ عام سمگلنگ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کیلئے وِد ہولڈنگ ٹیکس نافذ کر دیا گیا جس میں کاریں ، تجارت کیلئے اشیاء کی خرید ، بین الاقوامی سفر، بینکوں سے لین دین اور جائیداد کی خرید و فروخت شامل ہیں۔ ان اصلاحات پر تجارتی حلقوں نے بری طرح احتجاج کیا۔ دکاندار اور تجارتی تنظیمیں 13جولائی سے ہڑتال پر ہیں ،صنعتی ادارے جن میں ہونڈا اور انڈس موٹرز شامل ہیں انہوں نے پاکستان سے اپنا کاروباربند کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کی اقتصادی منصوبہ بندی سیاسی مفادات کی نذر ہو چکی ہے۔ اس طرح کے غیر مقبول فیصلے جن سے ٹیکس بیس بڑھانا، سمگلنگ روکنایا اخراجات میں کمی مقصود ہو ماضی میں نہیں کیے گئے ۔ پچھلے 40سال میں پر تعیش اشیا ء کی برآمد بند نہیں کی گئی جس کی وجہ سے بیلنس آف پیمنٹ پر منفی اثرات مرتب ہوتے رہے تھے۔ تعمیراتی منصوبے سیاسی بنیادوں پر دیے جاتے تھے جن سے اس حلقہ میں مقبولیت مقصود ہوتی تھی نہ کہ اقتصادی ترقی۔ چھوٹے اور درمیانے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں نہ لانے کی وجہ سے تنخواہ دار اور متوسط طبقہ بری طرح پِس رہا تھا۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ ٹیکس نیٹ میں لانے کی وجہ سے تاجر حکومت سے خفا ہیں۔ ساری قوم کو ٹیکسوں کا بوجھ مل کر اٹھانا چاہیے ایک فیصد ٹیکس دینے والی آبادی باقی 99فیصد کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ بین الاقوامی محاذ پر پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر بہتر نتائج حاصل کیے ہیں جو کہ سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کی شکل میں ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت گوادر ،جو کہ ایشیاء کا کوہِ نور ہے کی وجہ سے بہت بڑھ گئی ہے۔ اس بندرگاہ کی وجہ سے ملک کی درآمد اور برآمد دونوں میں اضافہ ہو گا ۔ تقریباً تمام بیرونی ممالک نے سی پیک میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ پاکستان اور چین دونوں ممالک بڑی دلچسپی سے اس کی ترقی کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ سی پیک اور اوبور کے تحت جتنے بھی راستے ہونگے وہ ہندوستان کے نقطہئِ نظر سے متنازعہ علاقوں سے گزریں گے۔ لہٰذا وہاں سے چین کی ریلوے لائنیں اور سڑکیں گزرنے کے ساتھ ہی ہندوستان کی دعوے داری خاصی کمزور پڑ جائے گی۔ روس اور چین کے درمیان بڑھتے تعلقات نے پاکستانی پوزیشن کو خاصی تقویت دی ہے۔ روسی صدر پیوٹن نے رسمی طور پر عمران خان کو روس کے دورے اور روسی اکنامک فورم میں شمولیت کی دعوت دی ہے اسی طرح روس اور چین نے اوبور کے منصوبوں میں شمولیت پر اتفاق کیا ہے۔ ایسے میں عمران خان ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کرنے پہلے دورے پر امریکہ جا رہے ہیں۔ جب سے عمران خان اور ٹرمپ نے اپنے عہدے سنبھالے ہیںان دونوں کا تقابل کیا جاتا رہا ہے۔نظریاتی طور پر دونوں جارح مزاج ہیں۔ دونوں نے جنگ کی پالیسی اپنانے کا اعلان کیا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا اور ایران کے معاملے میں بڑے ضبط و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ویسے ہی عمران خان نے ہندوستان اور افغانستان کے معاملے میں بردباری کا مظاہرہ کیا۔ ریپبلکنز اپنے عوام کو یہ بتاناچاہتے ہیں کہ پاکستان انکے ساتھ ہے ۔ پاکستان نے دہشتگردی کو ختم کرنے کیلئے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ کو کہا جائے گا کہ وہ’’ ڈو مور‘‘ کی پالیسی ترک کرتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کے تصادم کے معاملے میں متوازن رویہ اپنائے۔ عمران خان اونٹ کی کھال سے بنے ہوئے خوبصورت ظروف کا تحفہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیش کرینگے جس پر انکی مسکراتی تصویر بنی ہوگی۔ یہ دونوں ملکوں کے عوام کو مسکرانے کا ایک موقع ضرور فراہم کرینگے۔