جمہوریت کے لبادہ میں بدترین آمریت مسلط، فیصلہ کن جنگ کا وقت آگیا: شہباز شریف

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومتی بیانات سے پاکستان قطر منصوبہ متاثر ہو رہا ہے۔ عمران خان کے پاس نہ اہلیت ہے نہ تجربہ۔ اب فیصلہ کن جنگ کا وقت آ گیا ہے۔ عمران تاجروں کے پاس جائیں یا پارلیمنٹ تقریر ایک ہی ہوتی ہے۔ اپوزیشن کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ چئیرمین سینٹ کی تبدیلی کا واحد مقصد ملک میں جمہوریت کی ڈوبتی کشتی کو بچانا ہے۔ ملک کا سب سے اہم ترین مسئلہ غریب عوام کی روٹی روزگار کا مسئلہ ہے، عام آدمی کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ سلیکٹڈ وزیراعظم کی سوچ سیاسی مخالفین سے دشمنوں سے بڑھ کر سلوک کرنے پر ختم ہوجاتی ہے۔ وہ پیر کو پارلیمنٹ ہائوس میں اپوزیشن سینٹرز کے اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ اجلاس میں سینٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفرالحق، ڈپٹی چئیرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا، سابق چئیرمین سینٹ رضا ربانی، شیری رحمن، جمعیت اہل حدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر، جے یوآئی (ف) کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری اور سینیٹر عثمان کاکڑ کے علاوہ اپوزیشن کے سینیٹرز کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اپنے خطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ چین سمیت ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک ہم سے معاشی خوشحالی، معاشرتی ترقی، میڈیا اور دیگر حقوق میں کوسوں آگے نکل چکے ہیں۔ ہم ابھی تک دائرے میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ ماضی سے سبق سیکھ کر میثاق جمہوریت لائے تھے جو ایک شاہکار جمہوری دستاویز ہے۔ اس میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ روٹی پندرہ اور نان بیس روپے کا ہونا غریب کے لئے مہنگائی کی قیامت ہے، بیروزگاری انتہا کو چھو رہی ہے۔ فیکٹریاں بند، مزدوروں کی چھانٹی ہورہی ہے، آدھی تنخواہ پر لوگ کام کرنے پر تیار ہوچکے ہیں۔ مریضوں کو دوائیاں میسر نہیں، بیروزگاری کا سمندر ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم نے جس وطن کو اتحاد کی قوت سے بنایا تھا، بدقسمتی سے آج تفریق و تقسیم کا شکار ہورہا ہے۔ شہبازشریف نے کہاکہ ملک کا سب سے اہم ترین مسئلہ غریب عوام کی روٹی روزگار کا مسئلہ ہے، عام آدمی کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ سلیکٹڈ وزیراعظم 1992والی کیفیت میں آج بھی ہیں، انہیں غریبوں کی غربت اور مسائل کا ادراک نہیں۔ سلیکٹڈ وزیراعظم کی سوچ جیل، عقوبت خانے، سزائوں، اپوزیشن سے دشمن سے بھی برا سلوک کرنے تک محدود ہے۔ انہوں نے کہاکہ نئے چئیرمین کے انتخاب کا مقصد ملک میں ہونے والی ابتری کو روکنے کی کوشش ہے۔ شاہد خاقان عباسی کے خلاف کارروائی سیاسی بنیادوں پر عمران خان کے کہنے پر ہوئی۔ نام نہاد احتساب ایک سیاسی ایجنڈا ہے۔ حکومت قومی اداروں کی ساکھ کو خاک میں ملا رہی ہے۔ جمہوریت کے لبادے میں بد ترین آمریت مسلط ہو چکی ہے۔ قانون کی حکمرانی کے لئے ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار ہیں۔ اپوزیشن کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سلیکٹڈ وزیراعظم نے امریکہ میں بھی کنٹینر والی تقریر کی۔ ان کے اعصاب پر نواز شریف سوار ہیں۔ اس موقع پر میر حاصل خان بزنجو اور راجہ پرویز اشرف نے بھی خطاب کیا۔علاوہ ازیں متحدہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے ملک میں سنسرشپ کے خلاف پٹیشن دائر کرنے اور گرفتاریوں کے خلاف نیب دفتر کے سامنے احتجاج کا فیصلہ کیا ہے قبائلی اضلاع میں دھاندلی کے ثبوت جلد منظر عام پر لائے جائیں گے، دھاندلی کے باوجود تحریک انصاف صرف پانچ نشستیں حاصل کر سکی۔ جب کہ متحدہ اپوزیشن نے فوج کو پولنگ سٹیشنز کے اندر تعینات نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پیرکو متحدہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا تیسرا اجلاس کمیٹی کے کنوینئر اکرم خان درانی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں مسلم لیگ ن کی طرف سے احسن اقبال اور سردار ایاز صادق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان خان کاکڑ ، نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو اور پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے فرحت اللہ بابراور سید نیئر حسین بخاری سمیت دیگر ارکان نے شرکت کی جس میں 25 جولائی 2019ء کو ہونے والے اپوزیشن کے احتجاج کو حتمی شکل دی گئی۔ رہبر کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن رہنمائوں کی ممکنہ طورپر مزید گرفتاریوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پربھی غور کیا گیا۔ اجلاس کے بعد اکرم خان درانی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر غور کیا گیا۔ ہماری تعداد پوری ہے۔ اجلاس میں تمام سیاسی گرفتاریوں کی مذمت کی گئی۔ اکرم خان درانی نے کہا کہ صحافی آج مظلوم ہیں، ہم نے مارشل لا بھی دیکھا ہے، مگر ایسی سنسر شپ نہیں دیکھی۔ انہوں نے اس موقع پر یہ بھی بتایا کہ اپوزیشن کی طرف سے سنسرشپ کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کروا رہے ہیں۔ اکرم درانی نے کہا کہ 25 جولائی2019ء کو سب کو معلوم ہو جائے گا کہ عوام کس کے ساتھ ہیں؟۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سلیکٹڈ وزیراعظم کا امریکہ کا دورہ سب دیکھ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے پاکستان ہائوس میں رہنے کی وجہ بچت نہیں کچھ اور ہے۔ پہلی بار کسی وزیر اعظم نے بیرون ملک ایسی تقریر کی اور اپوزیشن رہنمائوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 25 جولائی 2019ء کو رہبر کمیٹی کے ارکان، مولانا فضل الرحمان اور اسفند یار ولی پشاور، شہباز شریف لاہور، بلاول بھٹوزرداری کراچی اور میرحاصل خان بزنجو ، محمود اچکزئی کوئٹہ میں جلسوں سے خطاب کرینگے، ہم کسی دفعہ 144 سے نہیں ڈرتے، موجودہ حکومت جتنی ڈرپوک کوئی حکومت نہیں دیکھی، دورہ امریکہ آرمی چیف کا تھا وزیراعظم دورے میں بن بلائے مہمان کی طرح گئے ہیں۔ مریم نواز کی منڈی بہائوالدین کے بعد فیصل آباد کے جلسے کو روکا گیا، میڈیا چینلز پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ وزیراعظم نے امریکہ جلسہ میں جو زبان استعمال کی وہ قابل مذمت ہے۔
شہباز


اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) متحدہ اپوزیشن نے پیر کو چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے سلسلے منعقدہ مشاورتی اجلاس میں 62 سینیٹرز نے شرکت کر کے کامیاب ’’شو آف پاور ‘‘ کر دیا جب کہ حکومتی اور اتحادی جماعتوں کے مشاورتی اجلاس میں 36میں سے صرف 19سینیٹرز نے شرکت کی اس طرح متحدہ اپوزیشن نے واضح اکثریت ثابت کر دی ۔پیر کو پارلیمنٹ ہائوس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر مشاورت کیلئے حکومت اور اسکی اتحادی جماعتوں جبکہ متحدہ اپوزیشن جماعتوں کے الگ الگ اجلاس منعقد ہوئے ۔ مسلم لیگ (ن)کے صدر شہباز شریف کی جانب سے اپوزیشن سینیٹرز کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا جس میںاپوزیشن کے 62 سینیٹرز نے شرکت کی۔ راجہ محمد ظفر الحق نے اپوزیشن کی پوری قوت کو مجتمع کر دیا۔ اپوزیشن کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن)کے سینیٹر جاوید عباسی نے بتایا کہ اپوزیشن کے اجلاس میں 62 سینیٹرز نے شرکت کی۔ سینیٹرز جنرل (ر) عبدالقیوم اور چوہدری تنویر بھی وطن واپس آ رہے ہیں اس طرح سینیٹرز کی تعداد 64 ہو جائے گی۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن سینیٹرز کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ اور دبائو ڈالنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اپوزیشن آج چیئرمین کو سینیٹ کی کارروائی نہیں چلانے دے گی۔ ہنگامہ آرائی کا فائدہ اٹھا کر چیئرمین سینیٹ ریکوزیشن پر اجلاس غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کر سکتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز کے مشترکہ اجلاس ہارس ٹریڈنگ سمیت ہر حربہ کو ناکام بنانے کا فیصلہ کیا گیا سینیٹرز نے کہا کہ ’’ہم کوئی دبائو قبول نہیں کریں گے، اپوزیشن کا کوئی سینیٹر نہیں بکے گا‘‘ پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں62 سینیٹرز شریک ہوئے،کل تک اپوزیشن کے تین سے چار ارکان مزید آجائیں گے، ہوسکتا ہے جماعت اسلامی ووٹنگ میں حصہ نہ لے، دیوار پر لکھا واضح ہوگیا۔ اپوزیشن کا اجلاس (آج) منگل دوبارہ ہوگا جس کے بعد تمام ارکان اکھٹے ایوان میں داخل ہوں گے حکومت اور اتحادی جماعتوں کے 36میں سے 19سینٹرز اجلاس نے شرکت کی ۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سینیٹر مظفر شاہ اور بی این پی مینگل کے جہانزیب جمال دینی ،فاٹا کے سینیٹرز ہدایت اللہ ، ہلال الرحمان، مومن خان آفریدی، تاج آفریدی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے حکومت اتحاد کے اجلاس میں شرکت نہیں کی حکومتی اتحاد کے اجلاس میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز، سجاد طوری، عتیق شیخ، ولید اقبال، فدا محمد، سرفراز بگٹی، مرزا آفریدی، بیرسٹر سیف، احمد خان اورنصیب اللہ بازئی نے شرکت کی ۔ اجلاس میں آج (منگل) کو ہونے والے سینیٹ کے اجلاس بارے میں حکمت عملی تیار کی گئی۔

ای پیپر دی نیشن