کسی کے پاس دولت کے ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں، اگر اس دولت کے ذرائع میں ایمانداری کا عنصر شامل ہو اور خاص طور پر بیرون ملک رہائش پذیر اثاثی طور پر پاکستانی بے شمار نہ صرف دولت سے مالا مال ہیں بلکہ نہائت اہم شعبوں میں بیرون ممالک اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں، تحریک انصاف کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ تعلیم یافتہ اور بیرون ملک کام کرنے والے اہم عہدوںپر فائز افراد کی اس جماعت کو حمائت حاصل رہی ہے ، وہ تحریک انصاف کو بیرون ملک سے بے شمار فنڈز بھی مہیا کرتے رہے ہیں۔ سعودی عرب میں تو میں نے خود دیکھا ہے ۔ پاکستان میں ہمیشہ سیاسی افق پر کوئی نہ کوئی مسئلہ ایسا آجاتا ہے کہ تمام میڈیا اس پر تبصرہ نگاری شروع کردیتا ہے مگر یہ شور و غوغا چند دن اُٹھتا ہے پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے یا بٹھا دیا جاتا ہے ۔ اس طرح کوئی معاملہ بھی اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچتا ، یہاںتک کہ بہت ہی حساس معاملات جیسے کچھ عرصے قبل ایک tik tok زدہ خاتون وزارت خارجہ اسلام آباد کے نہائت حساس علاقے میں ایک صدارتی کرسی پر جھولا جھول کر تصاویر بنا رہی تھیں یا بنوا رہی تھیں، تحقیقات کا حکم ہوا نہ خاتون کے آنے کا علم ہوا نہ جانے کا۔ ابھی دو روز قبل ہی پشاور کی ایک گلوکارہ ـ’’گل پانڑہ ‘‘ اسسٹنٹ کمشنر لنڈی کوتل کے سرکاری لان میں رقص کرکے ’’غل غپاڑہ ‘‘ مچار ہی تھیں۔ اسکی بھی تحقیقات کا حکم ہوگیا ہے ، نتائج توقع کے مطابق اسکے بھی نہیں آئینگے ۔ یہ واقعات شائد ہماری تفریح کیلئے منظر عام پر آتے ہیں تو تھوڑی دیر کیلئے آٹے ، چینی، پیٹرول ، ضروریات زندگی کی مہنگی اشیاء ، بے روزگار ی سے توجہ ہٹا دیتے ہیں۔ آخر عوام کو بھی تو جینے کا اور خوش رہنے کا حق ہے ۔ اب حال میںوزیراعظم کے پندرہ میں سے سات معاونینِ خصوصی کے دُہری شہریت کے حامل ہونے کا معاملہ، جس کی تفصیلات کابینہ ڈویژن کے ذرائع کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہیں، اس پر اعتراض کرنے والوں بیان بازی کرنے والوںکا سمجھ نہیں آتا اگر کوئی بندہ باہر کام کرتا رہا ہے اس نے جائیداد بنائی ہے تو بسم اللہ ، خوشی کا اظہار کرنا چاہئے ، نیز حکومت وقت کی تعریف کرنا چاہئے کہ وزیر اعظم نے ایک وعدہ تو پورا کیا اور اپنے معاونین کی جائیدادوں ، اور بیرون ملک کی قومیتوں کا عوام کو بتایا ، اگر حکومت خود نہ بتاتی تو حزب اختلاف کیا کرلیتی ؟؟ ان دو سالوں میںعوام کی چیخیںنکل گئی ہیں ، حزب اختلاف سوائے بیان بازی کے کیا کررہی ہے ؟ ایک معاملہ ہے جو غور طلب ہے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے آج سے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے اہم سرکاری مناصب پر دُہری شہریت کے حامل افراد کے تقرر کو سیکورٹی رسک قرار دیا تھا ۔ دسمبر 2018کے وسط میں ان کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نے اپنے تحریری فیصلے میں قرار دیا تھا کہ دُہری شہریت رکھنے والے افراد کو پاکستان میں سرکاری عہدے دیے جانے پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ فیصلے میں حکومت کو اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں جلد واضح قانون سازی کی ہدایت کی گئی تھی۔ اگر موجودہ حکومت کسی ’’غیر ملکی ماہر ‘‘ کی خدمات لینا چاہتی تھی تو سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرسکتی تھی۔ اس (نیک کام) میں قانون کی حکمرانی بھی ہوتی نیز حکومت نے جن سات معانین کی تقرریاں کی ہیں یہ تمام تقرریاں سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد کی ہیں ، معاونین میں اگر ندیم بابر کی جائیداد و کا ذکر حالیہ پیٹرول کرائسیس کے بعد کا ہوتا توزیادہ بہتر تھا ۔
آئین اور قانون کی حکمرانی کی دعویدار حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے ایک واضح فیصلے کے بعد اہم سرکاری مناصب پردہری شہریت رکھنے والے افراد کا یوں مسلسل مقرر کیا جانا قطعی ناقابلِ فہم ہے۔ عدالتی فیصلے کا تقاضا تو یہ تھا کہ نہ صرف یہ تقرر یاں عمل میں نہ لائی جاتیں بلکہ بیس ماہ کی اس مدت میں عدالت کی ہدایت کیمطابق پارلیمنٹ میں قانون سازی بھی کی جاچکی ہوتی۔ لیکن اس سمت میں کسی پیش رفت کا نہ ہونا اس گمان کو تقویت دیتا ہے کہ حکومت عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کا ارادہ ہی نہیں رکھتی ۔ اب بھی عدلیہ اور آئین و قانون کی بالادستی کا تقاضا ہے کہ یاتو اس فیصلے پر اس کی روح کے مطابق بلاتاخیر عمل درآمد کا آغاز کیا جائے یا قواعد و ضوابط کے مطابق اس پر نظرثانی کیلئے عدالت ہی سے رجوع کیا جائے۔
اب سوال ہے اس سرمایہ ، دولت کا جو ماشااللہ ان معاونین کی بتائی گئی ہے ۔کیوںنہ اسکا بھی پتہ لگالیا جائے کہ یہ ذرائع آمدن کیا تھے ، کیونکہ موجودہ حکومت شفافیت پر بھر پور یقین رکھتی ہے ۔ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو معاون خصوصی رکھنا کوئی بری بات نہیں مگر سوال اور خدشہ یہ ہے اور کہ کیا اتنی بھاری جائیدادیں رکھنے والے اور دوسرے ممالک کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے پاکستان جیسے سازشوںمیں گھرے ملک کے کتنے وفا دار ہونگے ، اس سے قطع نظرکہ وزیر اعظم کے پہلے کیا خیالات تھے معاونین کے متعلق ، یہ لوگ کسطرح اس ملک کی ’’خدمت ‘‘کررہے ہیں۔ چونکہ امریکہ سمیت دیگر ممالک کے گرین کارڈز رکھنے والے افراد کو امریکی حکومت سے خصوصی اجازت اور وجوہات دیکر ملک سے ایک معینہ مدت سے زائد رہنے کی اجازت ملتی ہے۔
دوہری قومیت رکھنے والوںکی تعداد خود حکومت میں خاصی ہوگئی ہے ، تو پھر خواجہ آصف ، اور حزب اختلاف کے لوگوںکے اقاموں کی کہانیاںسنانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ امید ہے حکومت اپنی شفافیت کی خاطر ان لوگو ںکو فارغ کرکے ، پی ٹی آئی کو انتخابات کیلئے فنڈز دینے کے احسانات کو بھول کر حکومت میں عوام کے منتخب کردہ پی ٹی آئی کے اراکین کو ذمہ داریاںسونپے گی۔ وہ سب بھی قابل احترام اور قابل بھروسہ ہی ہیں دوہری شہریت رکھنے والوںکا تو کئی حلقہ بھی نہیں ، کوئی عوامی تائید و حمائت بھی نہیں ، سیاہ و سفید کرکے سوٹ کیس اٹھا کر ملک سے چلے جائینگے ۔