آئینِ ہندوستان کے آرٹیکل 370نے ریاست جموں و کشمیر کو جو خصوصی حیثیت دی اور اس آرٹیکل میں اُن کے حقوق اور اختیارات کی جو بات کی گئی، بھارتی سرکار نے اب اس آرٹیکل کو کالعدم قرار دے کر کلی طور پر ختم کر دیا ہے۔ جس سے ریاست کشمیر میں ایک بڑے تنازع کی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔ آرٹیکل 370کا خاتمہ درحقیقت مودی سرکار کی اُس معاندانہ اور شرپسند انہ سوچ کا نتیجہ ہے جس کے تحت نریندر مودی کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی کرنا چاہتے ہیں۔ آرٹیکل 370کشمیریوں کو ریاستِ کشمیر کے اندر، جو آئینی حقوق فراہم اور تفویض کرتا تھا اب اُنہیں اُس سے محروم کر دیا گیا ہے۔ جس سے ریاست میں ایک بڑی اور نئی تحریک نے جنم لیا ہے۔ ہندوستان سے آزادی کے لیے حریت کی ایک تحریک تو کئی دہائیوںسے چل رہی تھی لیکن آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد اب اس میں ایک نئی روح پھونک دی گئی ہے۔
آرٹیکل 370میں بنیادی طو ر پر ریاست کی تشکیل کے ڈھانچے کی بات کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر میں کوئی غیر مقامی کسی بھی جائیداد کا لین دین نہیں کرے گا۔ غیر مقامی یا غیر کشمیری پر ریاست میں جائیداد خریدنے اور وہاں مستقل سکونت اختیار کرنے پر پابندی عائد تھی لیکن اب یہ پابندی اٹھا لی گئی ہے۔ بھارتی سرکار کا بڑا مقصد ریاست جموں و کشمیر میں ہندوئوں کی اکثریت کو آباد کرنا ہے۔ غیر ریاستی باشندوں کو ریاست میں جائیداد خریدنے کا حق دے کر درحقیقت کشمیریوں کو اپنی ہی ریاست کے اندر اقلیت میں تبدیل کرنا مقصود ہے تاکہ اُن کی اکثریت کا آئینی حق سلب ہو جائے اور الیکشن میں غیر مقامی ڈومیسائل کی بنیاد پر الیکشن لڑ سکیں۔
ہندوستان نے 1954ء میں جموں و کشمیر کو اپنے زیرِ کنٹرول ایک الگ ریاست کی حیثیت دی۔ آرٹیکل 370کا وجود عمل میں لایا گیا اور قرار پایا کہ کسی بھی غیر مقامی شخص یا خاندان کو ریاست جموں و کشمیر میں مستقل سکونت یا جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ تاہم جب کشمیر میں بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے حریت کی تحریک شروع ہوئی تو بھارتی فورسز کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کشمیری تحریک میں تسلسل کے ساتھ تیزی آتی گئی تو مودی سرکار میں تشویش پیدا ہونے لگی۔ نریندر اپنے رفقاء اور آر ایس ایس کے غنڈوں کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ کشمیری تحریک کا اگر کوئی فوری حل یا راستہ تلاش نہ کیا گیا تو یہ تحریک اُن کے لیے بڑے مسائل پیدا کر سکتی ہے جس سے اُن کا سیاسی مستقبل دائو پر لگ سکتا ہے۔ لہٰذا مودی سرکار نے فیصلہ کیا کہ آرٹیکل 370کو ہی ختم کر دیا جائے تاکہ ریاست میں ہندوئوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں کی آباد کاری کے ذریعے کشمیریوں کی اکثریت کو ختم کیا جا سکے۔ اس طرح اُن کی آزادی کی تحریک بھی دب جائے گی۔ دنیا کو بھی پیغام جائے گا کہ ریاست جموں و کشمیر میں کشمیریوں کو اقلیتی قومیت کا درجہ حاصل ہے۔یہ وہ پلان تھا جس کو عملی جامہ پہنایا گیا، اس طرح کشمیر میں ایک نئی تحریک نے جنم لیا۔ کشمیری اور اُن کے رہنما بھارتی سرکار کی چالوں کو بھانپ گئے۔ لہٰذا انہوں نے آرٹیکل 370کے خاتمے پر شدید ردعمل، مزاحمت اور بھرپور تحریک کا آغاز کیا۔اس وقت ریاست جموں و کشمیر میں لاکھوں انڈین فوجی موجود ہیں جو کشمیریوں کی شورش کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔بھارتی سرکار کو سمجھ آ چکی ہے کہ اگرچہ وہ آرٹیکل 370کو ختم کر چکے ہیں لیکن درحقیقت اس آرٹیکل کو ختم کر کے انہوں نے ریاست میں ایک نئی آگ اور تحریک کو ہوا دی ہے، روزانہ بیسیوں کشمیری شہید کئے جا رہے ہیں۔
ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 35Aایک ایسا آرٹیکل تھا جس نے جموں و کشمیر کی مقننہ کو ریاست کے ’’مستقل باشندوں‘‘ کو خصوصی حقوق اور مراعات دینے کی بات کی۔ اس کے بعد 14مئی 1954ء میں ایک صدارتی حکم کے ذریعے آرٹیکل 370کا نفاذ ہوا۔ اس کا فوری اطلاق بھی کر دیا گیا۔ لیکن مودی سرکار نے ریاست کے مستقل باشندوں کے آئینی حقوق سلب کرنے اور ووٹ کے حق کے دوران انہیں اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے یہ کھیل کھیلا۔
کیا کشمیری بھارتی سرکار اور بھارتی فورسز کے سامنے سرنگوں ہو جائیں گے۔ کیا اُن کی ’’تحریک‘‘ ختم ہو جائے گی۔ حالات ایسا ظاہر نہیں کرتے۔ اقوام عالم اور خود سلامتی کونسل اس حوالے سے کیوں خاموش اور چپ سادھے ہوئے ہیں، سمجھ سے باہر ہے۔ یہ انسانی حقوق اور آزادی سے متعلق اہم نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر بھی واضح طور پر اس قسم کی خلاف ورزی پر ’’ایکشن‘‘ لینے کی بات کرتا ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے اپنا بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔ دنیا کو جگانا ہو گا کہ سلامتی کونسل کے چارٹر کی بھارت کی طرف سے مسلسل خلاف ورزی درحقیقت اُن کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔
آرٹیکل 370، کشمیر اور اقوامِ
Jul 23, 2020