ترقی معکوس کا یہ سفر آخر کب تک؟

وہ میرے سامنا بیٹھا اپنی داستان غم روانی سے سنا رہا تھا جیسے اس نے کہانی زبانی یاد کر رکھی ہو اور جلدی جلدی سنا کر فراغت پانا چاہتا ہو۔گو کہ وہ ایک سفید پوش اور جھوٹ نہ بولنے والا دکھائی دے رہا تھا مگر اس کے سپاٹ لہجے کے باعث مجھے اس کی آپ بیتی فرضی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس سے پہلے کہ میری دلچسپی اس کی داستان سے ختم ہو اس کی آواز رندھ گئی اور اس کے الفاظ میں شدید درد کی آمیزش نے مجھے بھی دکھی کر دیا۔ لگتا تھا کہ اس نے اپنے آنسوئوں کو زبردستی آنکھوں کی منڈیریں پار کرنے سے روکا ہوا ہے۔ وہ ایک دم سے خاموش ہو گیا اور اپنے چہرے کو اوپر آسمان کی جانب اٹھا لیاجیسے اللہ تعالیٰ سے شکایت کرنا چاہتا ہو ۔پھر اس نے بولنے کی کوشش کی مگر الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ اس کے چہرے پہ پھیلا ہوا کرب اس کے سچا ہونے کی گواہی دے رہا تھا ۔میں اس سفید پوش شخص کو پچھلے کچھ عرصہ سے جانتا تھا اور میں اس کے بارے میں یہ بھی جانتا تھاکہ وہ امیر تو نہیں مگر غریب بھی نہیں تھا۔تاہم میں اسے پچھلے کچھ عرصہ سے کچھ بجھا بجھا سا محسوس کر رہا تھا۔ آج اس سے سرراہ ملاقات ہو گئی تو میں نے اسے اپنے ساتھ چائے پینے کی دعوت دی تو وہ کچھ ہچکچاہٹ کے بعد مان گئے اور ہم آبادی سے کچھ دور ایسے ریسٹورنٹ پر آبیٹھے جس کی میزیں اور کرسیاں دور دور لگی ہوئی تھیں جہاں ہم آسانی سے کسی کی مداخلت کے بغیر گفتگو کر سکتے تھے۔میں نے چائے کا آرڈر دیا اور ہم ریسٹورنٹ کے باغیچے کے ایک کونے میں لگی میز کرسیوں پر آبیٹھے۔کچھ دیر توہم روایتی گفتگو کرتے رہے کہ ویٹر اتنی دیر میں ہمارا آرڈر ہمیں دے کر واپس چلا گیا تو میں اپنے اصل مقصد کی طرف لوٹ آیا اور اس کی اداسی کا سبب پوچھ لیا۔ پہلے پہل تو اس نے میری بات کو رد کر دیا مگر میرے اصرار پر دھیرے دھیرے اپنی داستان سنانے لگامگرپھر اس کی رفتارمیں تیزی آگئی جیسے وہ اپنی بات جلدی جلدی مکمل کرنا چاہتا ہے۔اس نے بتایا کہ وہ میری اس پر خلوص دعوت کو ٹھکرا نہیں سکا مگر اسے روزی روٹی کے اس گھن چکر نے سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں چھوڑی مہنگائی نے ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔اس نے اپنی چائے ختم کر کے پیالی میز پر رکھتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی وہ کہیں کام کے سلسلہ میں جا رہا ہے اگر میں اجازت دوں تو وہ اپنا کام مکمل کرنے کیلئے جا سکیںاور درخواست کی کہ یہ سب باتیں جو اس کے اور میرے درمیان ہوئیں انہیں اپنے تک محدود رکھا جائے ۔ میں نے انہیں خوشدلی سے جانے کی اجازت دی اور اسے رخصت کر نے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا اور ان سے وعدہ کیا کہ یہ تمام گفتگو مجھ تک محدود رہے گی اس لئے واضح کرتا چلوں کہ اس مضمون میں اس لئے ان کی شناخت اور کردار مخفی رکھے جا رہے ہیں البتہ ان کی کہانی میں موجود کرب کو بیان کیا جارہا ہے۔وہ مجھ سے گلے ملے اور تیزی سے ایک جانب بڑھ گئے اور میں ریستوران کی میز پر اکیلا رہ گیا۔میں کچھ دیر وہاں بیٹھا اس کی مختصر داستان پر غور کرتا رہا اور پھر وہاں سے جانے کا ارادہ کیا مگر میرے قدم میری سوچ کا ساتھ دینے کیلئے تیار نہ تھے میں دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا اور ویٹر کو بلا کر ایک اور چائے کا آرڈر دے دیا۔ سوچوں میں غلطاں کافی دیر تک وہاں بیٹھا رہا اس دوران میں تین مزیدچائے کے کپ بھی پی گیا۔ مگر میں اس کی داستان کے کرب سے باہر نہ نکل سکا۔ میں چاروناچار وہاں سے اٹھا بل ادا کیا اور اپنے کام دھندے میں لگ گیا۔ رات اپنے بستر پر گیا تو یادیں پھر دریا کی تیز بے رحم موجوں کی طرح سامنے آ کھڑی ہوئیں۔ مجھے اس سفید پوش کی داستان بھی ان کربناک داستانوں جیسی ہی لگی جو آئے روز مختلف اخبارات اوردیگر میڈیا میں بیان کی جاتی ہیںاور جو بڑی تعداد میں ان جیسی داستانیں جو میڈیاتک نہیں پہنچ پاتیں۔المیہ سب کا ایک ہے مگرارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔مہنگائی کے ناسور نے سفید پوش طبقے کو بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔آئے روز کی بڑھتی قیمتوں نے روزمرہ ضرورت کی اشیاء بھی عوام سے دور کر دی ہیں۔عالمی کساد بازاری سے زیادہ حکومتی اداروں کی بدنظمی اور عدم دلچسپی کے باعث جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق جس کا جو دل چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ قیمتیں جب چاہے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کے بڑھا دی جاتی ہیں۔ایسا لگتا ہے حکومتی مشینری پوری طرح سے بے بس ہو چکی ہے۔اس پر لاک ڈائون نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ہنستے بستے گھرانوں کو ماتم کدوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ لاکھوں بے روزگار ہو کر سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والے سڑکوں پر عینکیں بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مائیںاور باپ بچوں سمیت خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔کہاں گئے امت مسلمہ کے وہ حکمران جو دریائے فرات کے کنارے ایک پیاسے کتے کی موت کا بھی خود کو ذمہ دار گردانتے تھے۔ اپنی تنخواہ بھی ایک مزدور کی تنخواہ کے برابر مقرر کرتے تھے۔بھیس بدل کر گلی کوچوں میں رات کے اندھیروں گشت کیا کرتے تھے تاکہ کسی ضرورت مند تک راشن پہنچایا جا سکے اور کسی مجبور کی خدمت کی جا سکے۔کہاں گئیں وہ ہماری سنہری اقدار جب کسی بھوکے کا شکم سیر کرنے کیلئے اپنے حصے کا کھانا بھی انہیں دے دیا جاتا تھا اور خود بھوکے پیٹ پتھر باندھ کروقت بتایا جا تا تھا۔قول و فعل کے تضاد نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔باتیں ریاست مدینہ کی اور مشکل وقت میں یہ اعلان کہ ہم لوگوںکو کھانا بھی نہیں کھلا سکتے۔کرپشن و اقربا ء پروری کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی کام رشوت کے بغیر ہونا ناممکن ہو چکا ہے۔ کوئی بھی ترقیاتی کام کمیشن دیئے بغیر شروع نہیں ہو سکتا۔ترقیء معکوس کا یہ سفر جانے کب تک رہے مگر یا د رکھئے کہ معاشرے اور قومیں صرف باتوں سے ترقی نہیں کرتے اس کیلئے عمل اور خلوص کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن