حضرت مولانا شعلہ مظلہ تعالی میرے بہت پرانے اور اپنی نوعیت کے منفرد دوست اور کرم فرما ہیں۔ان سے میری یاد اللہ گزشتہ تقریبا'' چوالیس سال سے ہے،اس طویل عرصے کے تعلق میں ان میں اگر کوئی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے تو صرف وہ طبعی تبدیلی ہی ہے جو سن و سال کے ساتھ ہر انسان میں آتی ہے، باقی رہ گئے انکیخیالات، مسلکی عقائد، طرز زندگی اور طرز گفتگو تو اس معاملے میں وہ آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں مجھ سے پہلی ملاقات کے وقت کھڑے تھے، انکے ساتھ میرا پہلا تعارف ایک دوست کے توسط سے ہوا تھا جو اب اس دنیا میں نہیں، وہ پہلا تعارف اور آج کا دن مولانا شعلہ صاحب اور میں یہ کھٹی میٹھی دوستی نبھائے چلے آرہے ہیں۔مولانا کے انقلابی خیالات تو ریڈ ملاز والے ہیں مذہب اور سوشلزم کا بھرتہ کہ نہ مذھب اور نہ ہی سوشلزم یعنی ایک فکری انتشار، ان کا طرز کلام اور تقریر کا ہجویہ انداز بلکل مولانا غلام غوث ہزاروی مرحوم والا ہے لیکن مسلکی لحاظ سے وہ علامہ خادم حسین رضوی ؒ کی فکر کا عکس ہیں، مولانا شعلہ صاحب کو شعلہ کا خطاب ہم جیسے کچھ دوستوں نے انکے شعلہ بار طرز خطابت پر دیا ہے ورنہ انکا نام تو بہت خوبصورت سا ہے بلکل انہی کی طرح، سارے سیاسی، علمی اور فکری اختلافات کے باوجودمولانا شعلہ سے اب تک محبت اور مودت کا جو رشتہ استوار ہے اسکی واحد وجہ ان کی نبی رحمت ؐ سے انتہائی محبت اور عقیدت ہے جب نبی رحمت ؐ کی ذات بابرکات کا ذکر ہو رہا ہو اور بیان کی سعادت خود مولانا شعلہ کو حاصل ہو تو مولانا شعلہ کے چہرے کا جمال اور جلال دیدنی ہوتا ہے، عشق رسول ؐ کی جیتی جاگتی تصویر سامنے ہوتی ہے اور مولانا شعلہ کا ذات اقدس سے اظہار عقیدت دل کی دنیا کو تہہ و بالا کر رہا ہوتا ہے۔.سیاست کے میدان میں مولانا تب فی الواقع لقب بامسمی ہوتے ہیں جب کسی سیاسی جلسے سے خطاب فرما رہے ہو تے ہیں، سیاسی جلسوں میں وہ بالعموم اپنے کسی نہ کسی دوست کی فرمائش پر دوستی نبھانے کی خاطر شعلہ افشانی فرماتے ہیں اور اس انداز سے فرماتے ہیں کہ مخالفین کی بھد اڑا کر رکھ دیتے ہیں، ان کی تقریر بیک وقت ہجو، مرثیہ اور پھکڑ پن سے عبارت ہوتی ہے، وہ جلسہ لوٹ لینے کا فن جانتے ہیں مگر اس فن میں طاق ہونے کے باوجود ان کی شخصیت کا سب سے بڑا نقص انکا مستقل مزاجی سے عاری ہونا اور مختلف الخیال دوستوں کی خوشی اور لحاظ کی خاطر جلسوں میں خطاب کی دعوت قبول کرنا ہے، آج اگر ایک سیاسی جماعت کے جلسے میں خطابت کے جوہر دکھا رہے ہیں تو کل کسی دوسری پارٹی کے جلسے میں پھلجھڑیاں چھوڑ رہے ہوتے ہیں اگر ایسا مزاج نہ ہوتا تو بہت نام اور مقام پاتے، ملکی حالات سے واقفیت ہی نہیں گہرے غور و فکر کا دعوی رکھتے ہیں، حکومتوں کی پالیسیوں پر تنقید کرتے وقت مجمعے اور محفل کے جذبات کا بخوبی احساس اور احترام کرتے ہیں لیکن حلقہ یاراں میں حکمت اور دانش کے وہ موتی رولتے ہیں کہ سننے والوں کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں، ملک کی معاشی، معاشرتی اور خارجہ پا لیسی پر ان کا تبصرہ منفرد اور اکثر گنجلک ہوتا ہے کبھی اتنا زبردست کہ بڑے بڑے جغادری بھی سر دھننے لگیں اور کبھی ایسا کہ آدمی سر پیٹ کر رہ جاتا ہے، پاکستان کی موجودہ اقتصادی حالت پر پچھلے دنوں فرمانے لگے کہ ہمارے حکمرانوں کی نااہلی ہی تو ہے کہ اتنا سود ادا کررہے ہیں جسکی وجہ سے ملکی معیشت غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے کراہ رہی ہے، سود سے ہی نہیں اصل زر لوٹانے سے بھی صاف انکار کر دیں کہ ہم سود کی مد میں پہلے ہی اصل زر سے زیادہ ادئیگیاں کر چکے ہیں اب حکمرانوں کو انکار پر ڈٹ جانا چاھیے، اس سلسلے میں وہ اپنے گاوئں کے چاچا فلک شیر کی مثال دیا کرتے ہیں جو ڈٹ کر قرض لیا کرتا تھا حاصل کردہ رقم منافع بخش کاروبار میں لگا کر خوب پیسہ بناتا اور جب قرض خواہ رقم کی واپسی کا تقاضا کرتا تو پہلے تو منت سماجت سے کام لیتا، اس سے وقت ما نگتا اور پھر قرض خواہ کے نہ ماننے کی صورت میں پستول نکال کر قرض خواہ کو بھگا دیا کرتا، یہ قصہ سنانے کے بعد مولوی شعلہ انتہائی جلال کے عالم میں سوال کرتا ہے، کیا ہمارے حکمرانوں کے پاس پستول نہیں جو بین الااقوامی مہاجنوں کو دکھا کر قرضوں کا ٹنٹا ختم کرا سکیں؟ ملک کے عدالتی نظام کی اصلاح کے لیئے وہ ایسا نادر نسخہ بتایا کرتے ہیں کہ پرانے بادشاہوں کے دور کی یاد تازہ ہوجاتی ہے بقول انکے اتنے ججز اور عدالتی عملہ رکھنے کی ضرورت ہی نہیں ضلعے سے لے کر اعلی ترین انتظامی سربراہ کو ہر جمعے کے دن مقامی جامع مسجد میں لوگوں کی شکایات، مقدمات پر موقعے پر ہی فیصلہ کر دیناچائیے، یوں تیز ترین انصاف ممکن ہو سکے گا۔ صحت عامہ کی ابتری، مہنگائی کا سبب انکے نزدیک لوگوں کی بسیار خوری اور سستی اور کاہلی ہے اس خامی کے دور کرنے کے لیئے خوراک اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں عام آدمی کی سہولت کا جو نادر نسخہ انھوں نے تجویز فرما یا ہے ایسا نسخہ انسانی تاریخ میں شائد ہی کسی کو سوجھا ہو، بقول انکے نسخہ بہت سادہ اور اس پر عمل آج کے کمپیوٹر دور میں انتہائی آسان ہے: حکومت کو ملک کے تمام شہریوں کے قد کاٹھ کے لحاظ سے معیاری وزن مقرر کر کے ان کا ڈیٹا محفوظ کرنے کے بعد زیادہ وزن رکھنے والوں کے لیئے کم راشن اور ٹرانسپورٹ میں سفر کا دوگنا کرایہ مقرر کر نا چائیے، یوں اس اقدام سے ملکی سطح پر مالی بچت ہوگی جو باقی شہریوں کے لیئے سہولت کا باعث بنیگی، وہ اپنی وزن سکیم کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے تجویز کرتے ہیں کہ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ہر شخص کو مطلوبہ معیاری وزن سے زیادہ وزن رکھنے کی صورت میں سواری الائنس سے نہ صرف محروم کر دیا جائے بلکہ اس پر گاڑی اور موٹر سائیکل استعمال کرنے کی پابندی بھی عائد کی جائے اس طرح بقول حضرت شعلہ: ملک میں بلڈ پریشر، شوگر اور دل کے امراض میں کمی ہوگی اور ہسپتالوں اور صحت کے نظام پر بوجھ بھی کم ہوگا اور ساتھ ہی قیمتی زرمبادلہ بھی بچے گا۔ سیاسی نظام کے حوالے سیوہ موجودہ انتخابی نظام کے سخت مخالف ہیں وہ اسلامی تاریخ سے ثابت کرتے ہیں کہ انتخاب میں حصہ لینے اور ووٹ دینے کا حق صرف مرکزی دارلخلافہ اور ہر صوبے کے صدر مقام کے اصحاب الرائے کو ہی ہونا چائیے اور اصحاب الرائے ان کے نزدیک ان مقامات کے تاجر، ٹیکنو کریٹس، سیکریٹریٹس کے ملازمین اور محکمہ اوقاف کے زیر انتظام مزہبی اداروں کے سرپرست اور وابستگان ہی ہیں، مزید اگر ووٹ بیس کو بڑھانا ہو تو عسکری اور سیکیورٹی اداروں کے وابستگان کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے، ہم حضرت شعلہ مظلہ کی ساری تجاویز سے اختلاف کر سکتے ہیں بلکہ انھیں ناقابل عمل اور مضحکہ خیز بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن قومی معاملات پر سوچنے، ملکی مسائل کے حل کے لیئے راستے تلاش کرنے اور نئے آئیڈیاز دینے کی انکی کاوش قابل ستائش ضرور ہے کہ اس نفسا نفسی کے دور میں ایسے لوگ بھی ہمارے درمیان موجود ہیں جو ملک و قوم کا درد رکھتے ہیں اور قوم کی بہتری کا سوچتے ہیں یہی ہمارے ٹھنک ٹینک ہیں جو رائے عامہ بناتے ہیں یہی لوگ ہیں جو قومی بیداری میں گمنام ہیروز کا کردار ادا کرتے ہیں، یہ گمنام ہیروز ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، ان کی آرا اور آئیڈیاز کو جانچنے پرکھنے اور حوصلہ افزائی کے لیئے ملک کے طول و عرض میں ڈیبیٹنگ کلب ہونے چاہئیں جن کا انتظام سرکاری سطح پر ہو جہاں پیش کی گئی آرا کو ملکی دفاع اور فلاح کے لیئے پالیسی سازی میں مد نظر رکھا جائے۔
، ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو بے شمار مولانا شعلہ کی قبیل اور قماش کے لوگ ملیں گے جن پر نئے آئیڈیاز الہام بن کراترتے ہیں اور جن میں اپنی بات کے ابلاغ کا زبردست ملکہ ہوتا ہے لیکن ان کی صلاحیتوں سے صرف مقامی سیاستدان ہی اپنی ضرورت کے مطابق انتخاب کے موسم میں فائدہ اٹھاتے ہیں اور پھر انہیں بھول جاتے ہیں، یوں انکی صلاحیتیں برسات کے بارشی پانی کی طرح قوم کی کشت ویراں کو صرف وقتی فائدہ پہنچاتی ہیں۔