قدیم تہذیبوں کی سرزمین مصر

مصر براعظم افریقہ کا ایک قدیم ملک ہے,اپنے براعظم کے شمال مشرقی کونے میں واقع یہ ملک سوڈان کے جنوب میں واقع ہے۔مصر کے مغرب میں لیبیااور شمال مشرق میں اسرائیل جیسی ناپاک اور دہشت گرد ریاست موجوجودہے جبکہ باقی دونوں سمتوں میں بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کے ساحل ہیں۔مصر کی ریاست کا کل رقبہ ساڑھے اٹھتیس ہزار (385230)مربع میل کے لگ بھگ ہے۔’’قاہرہ‘‘یہاں کا دارالحکومت ہے۔مصر بنیادی طور پر چار بڑے بڑے حصوں میں تقسیم ہے،اور یہ چاروں خطے اپنی اپنی الگ تاریخی شناخت رکھتے ہیں:وادی نیل،مشرقی صحرا،مغربی صحرااور صحرائے سینا۔مصر کی سرزمین اپنے ماضی میں عرب کی اولین تہذیب کی آماجگاہ ہے،مصرکی تہذیب کہ یہ خصوصیت ہے کہ یہ ماضی کی بہت بڑی بڑی تہذیبوں میں سے ان چند میں شمار ہوتی ہے جن کی بنیاد تعلیم پر تھی۔انسانیت کی تاریخ جہالت و لاعلمی کے صفحات سے بھری پڑی ہے لیکن اس علاقے کے اولین تمدن نے چراغ کی روشنی میں پرورش پائی اور اسکی بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ اس علاقائی تہذیب کی بنیادوں میں انبیاء علیھم السلام کی مساعی کارفرماہے۔اس دعوی میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ مصر کی تہذیب کی کوکھ سے ہی افریقی اور یورپی تہذیبوں نے جنم لیاکیونکہ یونان اور روم کی تہذیب دراصل مصری تہذیب کی خلف رو تھیں۔مصر کی تہذیب اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ اس تہذیب نے بیک وقت کئی مذاہب کو بھی اپنی گود میں دودھ پلاکر اپنے سینے کے چشموں سے سیراب کیاہے۔سرزمین مصر کو تہذیبی و تمدنی و ثقافتی اہمیت کے ساتھ ساتھ متعددمذاہب کی تقدیس کا استعارہ بھی حاصل ہے۔فرعون اورحضرت موسی علیہ السلام کی کشمکش کی داستان بھی اسی سرزمین پر وقوع پزیرہوئی تھی۔ 1971کے دستور کے مطابق مصر کی معیشیت کو اشتراکی رنگ میں رنگ دیاگیاتھا۔جس کے نتیجے میں تمام پیداواری ذرائع
 حکومت کی ملکیت میں آگئے ہیں۔چنانچہ مصر کے بنک،بیرونی تجارت،روئی کی برآمدات اور ذرائع مواصلات وغیرہ سب حکومت کے زیرانتظام چلائے جاتے ہیں۔نجی تحویل میں اگر کچھ ادارے ہیں بھی تو انکی مسلسل حوصلہ شکنی کر کے تو انہیں بھی یاتو ختم کر دیاجاتاہے یا پھر حکومت اسے اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔زمین کی ذاتی ملکیت کے بارے میں بھی حکومت بہت سخت پالیسی پر کاربند ہے۔زراعت مصر کی معیشیت میں بہت کلیدی کردار اداکرتی ہے۔ملک کی اکثریت زراعت سے وابسطہ ہے،زراعت کے باعث لوگوں کو روزگار میسر آجاتا ہے ملکی غذائی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں اور بیرونی زرمبادلہ بھی زراعت کے توسط سے حاصل کر لیاجاتاہے۔مکئی ، چاول ، گندم ، گنا ، ٹماٹر، کھٹے پھل اور مختلف قسم کے بیج یہاں کی نقد آور فصلیں ہیں۔مصر نے گزشتہ کچھ عرصہ میں صنعتی ترقی میں میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا ہے،روئی سے متعلق کارخانے  اور اسٹیل مل یہاں کی بڑی بڑی صنعتیں ہیں۔مصر نے خوراک اورغذائی اشیا کی تیاری کے میدان میں بھی صنعتیں لگائی ہیں۔بڑی بڑی آئیل ریفائرنریزمصر کی انڈسٹری میں اہم مقام رکھتی ہیں ان میں سے دو تو صرف نہر سویز میں قائم ہیں۔1977میں مصر کی پائپ لائین کا بھی افتتاح ہوا جو بحیرہ روم کے راستے نہر سوئزاور مشرق وسطی کو ملاتی ہے۔
1952سے پہلے مصر میں بادشاہی نظام رائج تھا ۔1923میں برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد جو قانون منظور کیاگیا اس میں بادشاہت اور پارلیمان کو متوازی اختیارات دیے گئے تھے ۔لیکن 1952میں یہ قانون منسوخ کردیاگیا،سیاسی جماعتوں پر 1953میں پابندی لگا دی گئی اور1956میں نیاآئین دے کر مصر کو جمہوریہ قرار دے دیاگیا۔1958سے1961تک مصر اور شام نے ’’متحدہ عرب جمہوریہ‘‘ کے ایک ہی نام سے باہم الحاق کرلیا۔1971میں مصر،شام اور لیبیا اس بات پر متفق ہوئے کہ تینوں ریاستیں ’’عرب جمہوریاؤں‘‘کے نام سے فیڈریشن بنالیں۔تینوں ملکوں نے اپنے ممالک کے عوام سے اس دستاویز کی منظوری کے لیے ریفرنڈم بھی کرایا اور قاہرہ اس
 کادارالحکومت مقرر ہو گیا۔یہ الحاق 1979تک ہی چل سکا اور پھر جب مصر نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تو باقی دونوں ریاستوں نے اس کنفڈریشن کو ختم کر نے کا اعلان کر دیا اور دیگر عرب ممالک نے بھی مصر کے ساتھ جملہ تعلقات کا خاتمہ کر دیا۔اسرائیل کے ساتھ مصر کے تعلقات ننگ امت کردار کے حامل ہیں۔مصر نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کی اور بدترین شکست کھائی،پنے علاقے بھی گنوا بیٹھا،قرآن و سنت نے جن لوگوں کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا ہے ان کے ساتھ صلح کی بھیک مانگنے کے لیے مصر نے دست سوال دراز کیے اور سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ نہ پایا۔مصر کا اس حد تک بے شرمانہ اور ڈھٹائی پر مبنی کردار رہا ہے کہ خود بھی اسرائیل کے خلاف لڑنے سے ہاتھ کھینچ لیااور جو مجاہدین اسرائیل کے خلاف لڑرہے ہیں ان کا بھی ناطقہ بند کیے رکھا۔فلسطینی علاقے ’’غزہ ‘‘کا واحدزمینی راستہ مصر کی طرف کھلتاہے ،غزہ کے شہریوں پر جب بھی اسرائیل نے دہشت گردی کی اور بم برسائے توبجائے اس کے کہ مصران فلسطینیوں کا ساتھ دیتااس کی بجائے مصر نے غزہ کے راستے بند کر کے تو خوراک اور دوائیاں بھیجنا بھی بند کر دیں۔مصر کی قیادت کو امت کی طرف سے بہت لعن طعن کی گئی ،بہت شرم دلائی گئی اور بہت برا بھلا کہاگیا لیکن مصر سمیت اکثر اسلامی ملکوں کی قیادت نے اپنی آنکھوں پر بے شرمی،بے غیرتی ،بے حیائی اور غداری کی پٹی باندھ رکھی ہے اور گزشتہ تین نسلوں سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھا ہے مسلمان ملکوں کی اس مصنوعی قیادت نے اس پر کوئی جرات مندانہ قدم نہیں اٹھایا۔
1971میں مصر کے اندر جو دستور منظور کیاگیا وہ اشتراکیت کے قریب تر تھا،اس دستور کے نتیجے میں مصر ایک طرح سے صدارتی نظام میں دھکیل دیاگیا۔صدر جو مملکت کا بھی سربراہ ہے،افواج کا بھی سربراہ ہے،کابینہ کا بھی سربراہ ہے اور ملک کا انتظامی سربراہ بھی صدر ہی ہے۔صدر کے لیے ضروری ہے کہ وہ مصری ہواورمصری والدین کی اولاد ہو اور چالیس سالوں سے زائد عمر کا ہو۔صدر کا انتخاب چھ سالوں کے لیے کیاجاتا ہے اور کتنی دفعہ ؟؟ اسکی کوئی قید نہیں۔
مصر کی جمہوریت میں صدر کے مدمقابل کوئی کھڑا نہیں ہوتا اور گزشتہ صدرہی نناوے فیصد ووٹوں کی برتری سے جیت جاتاہے،استبداد نے امت پر کتنے مضبوط پنجے گاڑھ رکھے ہیں،یہ تاحیات صدورجو گل کھلانا چاہیں انہیں کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔یہ حکمران بیرونی آقاؤں کو خوش رکھتے ہیں اور بیرونی آقا ان کے اقتدار کے دوام کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔قسمت سے صدر مرسی یہاں کے حکمران منتخب ہوئے لیکن دنیاکے سیکولر پروہتوں کو ایک اسلام پسندصدر برداشت نہ ہواکیونکہ صدرمرسی کی حکومت اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی،چنانچہ پوری امت مسلمہ کی طرح یہاں بھی جرنیلوں کے ذریعے منتخب حکومت کو ٹھکانے لگاکر ایک یہودی بہی خواہ جرنیل کومسلط کردیاگیا۔

ای پیپر دی نیشن