بلومبرگ نے نادہندگی یعنی ڈیفالٹ کے خطرہ سے دوچار ممالک کی ایک فہرست جاری کی ہے۔ یہ فہرست 4 اشاریوں کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے، ان میں حکومتی قرض پر شرح سودGovernment Bond Yield ، کریڈٹ ڈیفالٹ رسک سویپCredit Default Risk Swap، سود اور جی ڈی پی کا تناسبInterest payment to GDP ratio اور سرکاری قرض اور جی ڈی پی کا تناسب Government Debt to GDP ratio شامل ہیں۔ اس فہرست کے مطابق نادہندگی کے خطرہ سے دوچار ممال میں پاکستان کا نمبر چوتھا ہے۔ زیر نظر مضمون میں اس فہرست کے حوالے سے تین اہم ترین سوالات پر بحث کی گئی ہے.پہلا سوال یہ کہ اس فہرست میں ملک کی اتنی خراب درجہ بندی کا ذمہ دار کون ہے، دوسرا یہ کہ یہ فہرست نادہندگی کی پیشگوئی کے حوالے سے کتنی معتبر ہے اور تیسرا یہ کہ اس فہرست کے جاری ہونے کے مضمرات کیا ہو سکتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر بتایا ہے کہ یہ فہرست 4 اشاریوں کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ یہ چاروں اشاریے مکمل طور پر سٹیٹ بینک کی پالیسی پر منحصر ہیں۔ پہلا اشاریہ ہیسرکاری قرض پر شرح سود۔اس شرح کے تعین کا براہ راست اختیار اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے پاس سے ہے۔ سٹیٹ بینک کے پاس شرح سود کا فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ پاکستان میں کوئی دوسراادارہ شرح سود کے فیصلے میں مداخلت کا مجاز نہیں ۔ مثال کے طور پر مارچ تا مئی 2020 کے دوران اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو 13.25فیصد سے کم کر کے 7فیصد کر دیا ۔ شرح سود میں اتنی بڑی کمی پر احتجاج کرنے والا کوئی ادارہ نہیں تھا حالانکہ اس وقت افراط زر شرح سود سے زیادہ تھی۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینکنگ سیکٹر یا کسی دوسرے ادارے کی جانب سے کسی اضافے کے مطالبے کے بغیر پالیسی ریٹ کو 7فیصد سے بڑھا کر 15فیصدکر دیا ہے۔ شرح سود اور اس سے منحصر سرکاری پر شرح منافع کا فیصلہ صرف اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی صوابدید ہے۔ سوال یہ ہے کہ شرح سود یعنی پالیسی ریٹ کے بارے میں اسٹیٹ بینک کا فیصلہ کن عناصر پر مبنی ہوتا ہے؟ میں نے کئی اخبارات اور تحقیقی مضامین میں اس بات کی وضاحت کی ہے اور سٹیٹ بنک کے اپنے مانیٹری پالیسی بیانات سے واضح ہے کہ شرح سود میں اضافہ افراط زر کو کنٹرول کرنے کے مقصد سے کیا جاتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کا خیال ہے کہ اگر وہ شرح سود میں اضافہ کریں گے تو افراط زر کم ہو جائے گا اور اس لیے انہوں نے پالیسی ریٹ کو 7فیصد سے بڑھا کر 15فیصد کر دیا ہے۔ یہاں سٹیٹ بنک آف پاکستان کا قصور یہ ہے کہ سٹیٹ بنک نے کبھی اپنی مانیٹری پالیسی کی افادیت کا تجزیہ ہی نہیں کیا۔
شرح سود کے فیصلہ ایسا فیصلہ ہے جس کی قیمت بہت ہی زیادہ ہے۔ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں، اندرون ملکی سرکاری قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے 3450 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو مجموعی بجٹ کے ایک تہائی سے زیادہ ہیں۔ بلند شرح سود نہ صرف بذات خود نادہنگی کی علامت ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس بلند شرح سود کی وجہ سے قرض پر سود کی رقم کا حجم بہت بڑا بن گیا، جو کہ نادہندگی کی دوسری علامت کے طور پر بلومبرگ نے استعمال کیا ہے۔ اگر سٹیٹ بنک کے کسی فیصلے کی اتنی بھاری قیمت ہو تو فیصلے کی افادیت پر ایک بھرپور جائزہ رپورٹ ہونی چاہیے۔2021 میں ایک سیمینار میں صاحب تحریر نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مانیٹری پالیسی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر محمود الحسن کو براہ راست چیلنج کیا کہ اگر ا?پ کے پاس مانیٹری پالیسی کی کوئی تجزیاتی رپورٹ موجود ہے تو پیش کریں۔ ڈاکٹر محمود الحسن کے پاس جوابا خاموشی کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔تحریک انصاف حکومت کے گزشتہ 2 سال کے دوران اکثر یہ دعوی کرتی رہی ہے کہ پرائمری بجٹ سرپلس ہوچکا ہے، جس کا
مطلب ہے کہ اگر ہم سودکی ادائیگیوں کو چھوڑ دیں تو سرکار کی آمدن اخراجات سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود حکومت بہت بڑے پیمانے پر قرض لیتی رہی تو اس کی واحد وجہ موجودہ قرضوں پر سود کی ادائیگی ہی ہے۔یعنی گذشتہ دو برس کے دوران قرض میں اضافہ صرف سود کی ادائیگی کا نتیجہ ہے، اور سود کی اتنی زیادہ ادائیگی سٹیٹ بینک کی طرف سے شرح سود کے انتخاب کا نتیجہ ہے۔ لہذا ہمارے پہلے سوال کا جواب یہ ہے نادہندگی کے خطرے سے دوچار ممالک کی فہرست میں پاکستان کی موجودہ پوزیش کا واحد ذمہ دار اسٹیٹ بینک آف ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ فہرست نادہندگی کے خطرے کی درست عکاسی کرتی ہے؟ اس سوال کا جواب نہیں میں ہے۔ اس فہرست کے مرتبین نے فہرست کی تدوین کے طریقہ کار کی وضاحت نہیں کی ہے، تاہم اتنا واضح ہے کہ فہرست کی تدوین میں شامل اشاریے صرف اندرون ملکی قرض سے متعلقہ ہیں۔ نادہندگی کااصل خطرہ بیرونی ادائیگیوں کے توازن پر منحصر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سری لنکا کا نادہندہ ہونا مکمل طور پربیرونی ادائیگیوں کے بحران کا نتیجہ تھا۔ بیرونی کھاتوں سے متعلق اشاریے کے بغیر نادہندگی کے خطرے کا حساب کتاب ممکن ہی نہیں۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ اس فہرست کے مضمرات کیا ہیں؟ ہم بتا چکے کہ یہ فہرست نادہندگی کے امکانات کی سرست عکاسی نہیں کرتی۔ لیکن اس کے باوجود یہ فہرست بیرونی دنیا کے لئے پاکستان کے اقتصادی ماحول کے بارے میں بہت برا پیغام دیتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار اس فہرست کی تدوین میں استعمال ہونے والے طریقہ کار کی تفصیلات میں نہیں جانے کی زحمت گوارا نہیں کریں گے۔ ونکہ یہ فہرست بلومبرگ نے جاری کی ہے، اسے ایک قابل اعتماد فہرست کے طور پر لیا جائے گا۔ چنانچہ یہ فہرست دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری بالکل موزوں نہیں۔ اور اس کارنامے کی واحد ذمہ داری ہمارے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی ہے۔