اتوار ‘ 4محرم الحرام 1444ھ23   جولائی 2023ء

کراچی سے بارش کا پانی نکال دیا ہے، میئر کراچی کا دعویٰ
خدا جانے یہ کس دن کی فوٹیج اور ویڈیو میئر کراچی نے عوام کو الو معاف کیجئے احمق بنانے کے لئے چلا دی یا چلوائی ہے۔ موصوف فرما رہے ہیں کہ بارش کے بعد کراچی کی سڑکوں سے جمع شدہ پانی نکال دیا ہے۔ اور پس منظر میں کئی سڑکیں دکھائی جا رہی ہیں اس ویڈیو میں جن کے مطابق خشک سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہے۔ خدا گواہ لگتا ہی نہیں کہ ان سڑکوں پر پانی کی ایک بوند بھی برسی ہوگی خاک اڑتی البتہ ضرور نظر آتی ہے۔ ورنہ ہلکی سی بارش بھی ہو تو کسی بھی سڑک پر ایک آدھ دن گیلا پن یا کیچڑ یادگار کی شکل میں موجود رہتا ہے۔ مگر کراچی کی جن سڑکوں کی فلم دکھائی جا رہی ہے وہاں  خشک سالی نظر آتی ہے۔ سمجھ نہیں آ رہا میئر کراچی کو یہ کیا سوجی۔ ہاں یہ ہو سکا ہے یہ ان علاقوں کی فلم و جہاں بارش کی بوند بھی نہیں برسی۔ ورنہ جہاں بارش ہوئی ہے وہاں جل تھل ایک ہے۔ سارا میڈیا چیخ چیخ کر حالات دکھا رہا ہے۔ یہ تو 
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایاگیا ہوں
والا معاملہ ہے مگر دکھا یا کچھ اور جارہا ہیجو سمجھ سے بالا تر ہے۔ مگر یاد رہے اب کہ جماعت اسلامی والے اپوزیشن میں ہیں وہ یہ گڈی چڑھنے نہیںدیں گے اور ساری کہانی کا پول کھول دیں گے ویسے بھی وہ پیالی میں طوفان اٹھنے کے ماہر ہیں سٹی کونسل کا پہلا اجلاس گواہ ہے جہاں مرتضی وہاں یعنی میئر بھی خاموش تماشہ دیکھنے کے سوا کچھ نہ کر سکے، اور پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم بھی ان کے ساتھ ہے۔
٭٭٭٭٭
 جلد پاکستان جائوں گا ،نواز شریف، پاکستان درست راہ پر آگیا، مریم نواز
کسی شاعر نے خوبصورت  ایک شعر کہا تھا 
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کہ راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
تو بھیا  ایسی ہی کچھ صورتحال اس وقت میاں صاحب کی واپسی پر بھی نظر آ رہی ہے۔ انہیں واپس آنا ہے تو آ جائیں کس نے روکا ہے۔ ہتھکڑیاں اور جیلیں تو سیاستدانوں کے لئے باعث فخر ہوتی ہیں۔ کبھی خوشی کبھی غم والا موسم تو سیاست میں ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ تو پھر کہتے بھی ہیں ناں…’’ سیاں بہئے کوتوال اب ڈر کاہے کا"
حکومت بھی آپ کی ہی ڈیڑھ سال سے تھی۔ آئے کیوں نہیں۔ اچھا استقبال بھی ہوتا۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی، مریم نواز بھی کہہ رہی ہیں خدا کا شکر ہے کہ ملک واپس راہ راست پر آگیا تو پھر میاں جی جب چاہیں جم جم تشریف لائیں۔ اس وقت جو معاشی صورتحال اور مہنگائی کی حالت ہے شاید اس نے میاں جی کے قدم روک لئے ہیں۔ ایسے میں لگتا نہیں کہ میاں نواز شریف واپسی کی راہ لیں۔ اگر ایسے سنگین مشکلات کو راہ راست کہتے ہیں تو اس پر ملک کے قابض حکمران ہی خوش ہو سکتے ہیں۔ جو اندرونی و بیرونی قرضے کھا کھا کر پانی میں ڈوبی لاش کی طرح پھولے ہوئے ہیں۔ غریب آدمی تو بھول چکا کہ راہ راست کون سی ہے جن کے بنگلے، اکائونٹس، بچے اور کاروباری مراکز ملک سے باہر ہیں ان کے لئے تو ہر راہ سیدھی ہی ہے۔ یہ عوام الناس تو ان کی سب راہیں کھوٹی ہو رہی ہیں۔ اب کسی کے آنے یا کسی کے جانے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اپوزیشن ہو یا حکومت میں شامل سب سیاستدان برابر ہیں۔ سب سبز باغ دکھا کر عوام کو  لوٹتے ہیں اور اپنا گھر بھرتے ہیں۔
٭٭٭٭
کراچی عدالت میں  پیشی کے دوران فرار ہونے والا بندر 2 دن بعد گرفتار
کراچی کی عدالت میں پیش ہونے والے یہ گرفتار بندر بھی کمال کے نکلے نہ اپنی فکر نہ عدالت کا خیال ۔ان کوپکڑ کر لانے والے پولیس والے تو بے حال سے زیادہ بدحال اور نڈھال نظر آئے۔ وہ ڈر بھی رہے تھے کہ کہیں کاٹ نہ لیں۔ یہ بندر غیر قانونی طورپر پکڑ کر شہر میں والے افراد سے برآمد کرکے عدالت لائے گئے جہاں عدالت نے ان بندروں کو واپس جنگل میں چھوڑنے کا فیصلہ کرنا تھا۔ ان میں ایک زیادہ شریر بندر جو غالباً جنگل میں اپنے گروہ کا سردار ہوگا۔ کسی نہ کسی طرح پولیس والوں کے چنگل سے نکل کر مقامی عدالت سے فرار ہوگیا۔ دیواریں، درخت کھمبے پھلانگتے ہوئے نجانے کہا ں سے کہا ں نکل گیا۔ پولیس والے جو عام انسان کو بھاگتے ہوئے پکڑ نہیں سکتے مسلسل دو دن اس کے پیچھے خوار ہوتے رہے اور بالآخر اسے دوبارہ پکڑ ہی لیا۔ اب معلوم نہیں اس فرار شدہ مجرم کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ انہیں کہاں چھوڑا جائے گا۔ انسانوں نے تو جنگل کاٹ ڈالے ان جنگلی جانوروں کے رہنے والے علاقوں پر قبضہ کرکے گھر بنا لئے اب یہ بے چارے جائیں تو جائیں کہاں۔ یہ بھارت تو ہے نہیں جہاں انہیں’’ہنومان‘‘ کہہ کر ان کی پوجا ہوتی ہے۔  یہاں تو پولیس والے اچھے بھلے پکڑے جانے والے انسان کو بندر بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسی کوء حوالات بھی نہیں جہاں انہیں رکھا جا سکے۔نہ اور کوء جگہ ہے۔ شہروں سے دور کسی علاقے میں ان کو چھوڑ کر آزاد فضا میں رہنے کا موقع دیا جائے تو یہی انصاف ہوگا…
٭٭٭٭
 بجلی کے بل میں نئے مہمان کی آمد۔
 بے شک ہمارے حکمران عوام کی جیب سے پیسے نکالنے میں ماہر ہیں۔ یہ ایسے سنگدل ہیں کہ کسی سے رعایت نہیں کرتے۔ زیادہ تر ان کا زور عوام پر ہی چلتا ہے جن کے لئے یہ ایک ظالم ساہوکار بن جاتے ہیں۔ اب پورے ملک میں جا کر سروے کر لیں۔ تو معلوم ہوگا کہ ریڈیو تو 70 فیصد عوام کب کا ترک کر چکے۔ پہلے لوگ گانے، ڈرامے اور خبریں سننے کے لئے ریڈیو استعمال کرتے تھے اور ہر بڑے چھوٹے گھر میں اس کا طوطی بولتا تھا پھر ٹی وی نے آ کر رنگ جمایا۔ اب دیگر ذرائع ابلاغ کی بدولت ریڈیو بے چارہ کسی کاٹھ کباڑ کی طرح بھولی بسری یاد بن کر طاق میں دھر نظر آتا ہے۔ اس کا خوبصورت وجود اب ڈرائنگ روموں سے اٹھایا جا چکا ہے۔ خدا جانے یہ قیمتی مشورہ کس عوام دشمن وزیر یا تدبیر یا مشیر خاص نے دیا ہوگا۔ ریڈیو اب بہت کم استعمال ہوتا ہے۔ سچ کہیں تو شاید کسی بزرگ کے پاس یا کسی دور دراز علاقے میں کسی دکان پر اس کی مدھرتانین سنائی دیتی ہوں۔ مگراس کے باوجود آئے روز بجلی کے بلوں میں ہونے والے اضافے کیا کم تھے کہ بجلی کے بڑھتے ہوئے ریٹ کے ساتھ حکومت نے نہایت سفاکی سے ہر بل میں ریڈیو فیس بھی شامل کر دی جو ہر ایک صارف سے زبردستی وصول کی جائے گی۔ اس طرح ہر ماہ اربوں روپے نہایت سہولت کے ساتھ حکومت کے خزانے میں جمع ہوگی۔ بجلی کے ریٹ اور ماہانہ بل کیا کم ہیں غریبوں کے نشمین پر بجلی گرانے کے لئے کہ اب یہ ایک اور تیر حکومت نے چلا دیا۔ اب اور کیارہ گیا ہے جو حکمران ان بھاری بلوں میں شامل کرکے ان کے بوجھ تلے عوام کو کچل کر ان کا قیمہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ پاکستان استحکام پارٹی والے تو 300 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اگر عوام نے ان پر اعتماد کر لیا تو پھر موجودہ حکمران اتحاد کا تو ٹائیں ٹائیں فش جلد ہونے والا ہے۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...