’’ارشاد نامہ، دانشوروں کی نظر میں‘‘

سیّد روح الامین 
’’ارشاد نامہ‘‘ دراصل ارشاد حسن خاں سابق چیف جسٹس آف پاکستان کی سوانح عمری ہے جس کا پہلا ایڈیشن 2020 ئ￿ میں منظر عام پر آیا۔ پھر دوسرا بھی شائع ہوا۔ اب بقول جسٹس صاحب تیسرا ایڈیشن بھی انشائ￿ اللہ چھپ جائے گا۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ کی اشاعت پر جن نامور دانشوروں، قلمکاروں، صحافیوں نے ’’ارشاد نامہ‘‘ کے بارے میں کالم اور مضامین لکھے۔ ظاہر ہے لکھنے والے سب ہی معتبر نام ہیں۔ اْن سب مضامین ، کالموں کو یکجا کر کے ’’ارشاد نامہ‘ دانشوروں کی نظر میں‘‘ شائع کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے۔  یہ کتاب جسٹس صاحب کے بارے میں مزید کام کرنے والوں کو حوالہ کے طور پر کام دے گی، اس کی فہرست کافی طویل ہے۔ آغاز میں ’ارشاد نامہ‘’’ سْن تو سہی‘‘…کے عنوان سے جسٹس صاحب کا دیباچہ ہے۔ ا س کے علاوہ کتاب میں 65 مضامین شامل ہیں۔ یہ سب مختلف اخبارات رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اِن 65 مضامین میں زیادہ تر روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوئے ہیں۔ لکھنے والوں میں جناب جسٹس گلزار احمد صاحب سابق چیف جسٹس آف پاکستان، جناب ایس ایم ظفر، جناب وسیم سجاد، جناب مخدوم علی خاں معتبر نام ہیں۔ کالم نگاروں میں بھی سعید آسی، فضل حسین اعوان، قیوم نظامی، ڈاکٹر سلیم اختر، ر?ف ظفر، مجیب الرحمن شامی ، جی آر اعوان، جسٹس ڈاکٹر منیر احمد مغل وغیرہ سب ہی معتبر اور بڑے نام ہیں۔ اِن سب نے اپنے اپنے انداز میں ’’ارشاد نامہ‘‘ کی پذیرائی کی اور کہیں تنقید بھی ہوئی تو بقول جسٹس ارشاد حسن انہوں نے تنقید کو بھی بخوشی قبول کیا۔ ’’ارشاد نامہ، دانشوروں کی نظر میں‘‘ کا انتساب جسٹس صاحب نے قائد اعظم کے نام کیا ہے۔ جن کی عقیدت و محبت جسٹس صاحب کو بھی پیشہ وکالت کی طرف لے گئی۔
’’ارشاد نامہ‘‘ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو دو باتیں واضح اس میں نظر آتی ہیں۔ ایک تو یہ جسٹس صاحب نے یتیمی کے عالم میں کس قدر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے محنت و جدوجہد سے اپنی کامیابیوں اور عظمتوں کا لوہا منوایا۔ یہ ہماری نوجوان نسل کے لیے سبق بھی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پر مکمل ایمان و بھروسے کے ساتھ کوئی بھی کام کیا جائے تو اللہ تعالیٰ آپ کی محنت کو کبھی بھی رائیگاں نہیں جانے دے گا میں جب اپنا بچپن دیکھتا ہوں تو یقین کریں جو بچے میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کرتے تھے وہ زیادہ تر غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے اور محنت و مزدوری کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے۔ دورِ حاضر میں سمجھ نہیں آتی۔ بچے تعلیم کی طرف توجہ بھی نہیں دیتے اور نمبر بھی گیارہ سو میں سے ایک ہزار بآسانی حاصل کرتے ہیں۔ مگر بظاہر وہ ’’تعلیم و تربیت‘‘ دونوں سے قاصر ہوتے ہیں۔ بظاہر جسٹس ارشاد حسن خاں صاحب کا بے ساکھیوں کے بغیر قائد اعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، ڈپٹی اٹارنی جنرل پاکستان، جج لاہور ہائیکورٹ، فیڈرل لائ￿ سیکرٹری، جج سپریم کورٹ آف پاکستان، ایکٹنگ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ، سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ، قائم مقام صدرِ مملکت اور چیف الیکشن کمشنر بن جانا یہ اللہ تعالیٰ کا اْن پر خاص فضل و کرم ہے۔ 
دوسری اہم بات جو ’ارشاد نامہ‘ میں نظر آتی ہے، وہ ظفر علی شاہ صاحب کا کیس ہے، جس کے بارے میں چیف جسٹس (ر) گلزار احمد لکھتے ہیں کہ : 
’’بظاہر اس پْوری سوانح حیات کو لکھنے کا مقصد اور لب لباب اِسی فیصلے کا دفاع کرنا اور اس کو منوانا بھی مقصود ہے…میں اس کیس کے بارے اتنا ضرور کہوں گا کہ اس فیصلے کو بے حد محنت سے لکھا گیا ہے جس میں ملکی اور غیر ملکی قانو ن کا بے انتہا ذکر آیا ہے۔ یقینا یہ فیصلہ اْس وقت کے لحاظ سے جرأت مندانہ فیصلہ تھا۔‘‘ اعتزاز احسن صاحب ’’ارشاد نامہ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں: کہ 
’’قاری کو اس سوانح عمری کی سب سے دلچسپ بات مصنف کا بے ساختہ پن لگے گا۔ چیف جسٹس صاحب جو واقعہ بیان کرتے ہیں انتہائی بے ساختگی کے ساتھ کرتے ہیں۔ کسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کوئی ملاوٹ نہیں کرتے۔
اپنی کسی نیت یا ارادے کو مخفی نہیں رکھتے، کسی بھی دشوار مرحلے سے مصنف جس طرح اپنی سبک رفتار ذہانت کو کام میں لاتے ہوئے اکثر یکدم اپنی حکمتِ عملی کو موقع پر ہی تبدیل کر کے، غیر متوقع مگر مثبت اور مفید نتائج حاصل کرتے ہیں۔ یقینا قاری اس پر رشک ہی کر سکتا ہے‘‘ 
’’سْن تو سہی‘‘ کے آخر میں جسٹس صاحب اْن تمام دانشوروں، اہلِ قلم اور کالم نگاروں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے نظر آتے ہیں جنہوں نے ’’ارشاد نامہ‘‘ کو لائق اعتنا سمجھا۔ جن اصحاب نے تنقید کی یا جسٹس صاحب کے نقطہ نظر سے اختلاف کیا تو جسٹس صاحب اْسے بھی خوشدلی کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ 
بہرحال ’’ارشاد نامہ‘‘ دانشوروں کی نظر میں‘‘ مختلف اصحاب علم و دانش کی ’’ارشاد نامہ‘‘ کے بارے میں لکھی گئی تحریروں کا مجموعہ ہے جو عام قاری کے لیے بالعموم اور وکلا صاحبان کے لیے بالخصوص مْستند کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن