سحر شعیل
بہت سی تحریریں پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے جن میں اساتذہ کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہیاور ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔عام طور پر آج کے معاشرے میں یہ رائے زبان زد عام ہے کہ آج کا شاگرد استاد کووہ عزت نہیں دیتا جس کا ایک استاد مستحق ہوتا ہے۔میری یہ تحریر ان تمام طلبا کے نام ہے جنہوں نے مجھے اپنے وجود کا یقین دلایا۔ان تمام طلبائ کے نام جن کے قول و فعل اور احترام نے مجھے بحیثیت استاد اپنی نظروں میں ہی محترم بنائے رکھا۔
استاد اور شاگرد کا رشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ تخلیق وجودِ آدم۔ اللہ رب العزت نے جب آدم علیہ السلام کو بنایا تو انہیں کچھ نام سکھائے۔اس طرح حضرت ِ آدم پہلے شاگرد قرار پائے اور اللہ تعالیٰ خود استاد ہوئے۔پھرآدم نے جب تمام فرشتوں اور جنات کی جماعت کے سامنے وہ نام بتائے تو انعام کے طور پر فرشتوں سے سجدہ کراویا گیا اور جنت میں ٹھہرایا گیا۔اسی طرح نافرمانی کرنے پر جنت سے نکالے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ سزا اور جزا بھی روزِاول سے موجود ہیں۔بات کہاں سے کہاں نکلتی جاتی ہے۔تو ثابت ہوا کہ استاد اور شاگرد کا رشتہ آسمانی ہے۔
میں چونکہ ایک استاد ہوں اور ہر سال اپنی جماعت مکمل کر کے جانے والے طلبا بہت معصومیت سے سوال کرتے ہیں کہ آپ ہمیں یاد رکھیں گی۔ان سوالوں کے جواب میں میں ہمیشہ ایک ہی جملہ بولتی ہوں کہ ڈاکٹر اپنے مریض کو اور استاد اپنے شاگرد کو کبھی نہیں بھولتا۔یہ بات من و عن درست ہے کہ استاد ہمیشہ اسی مقام پر رہتا ہے شاگرد اپنی زندگی میں آگے بڑھ جاتا ہے۔جب بھی وہ پلٹ کر دیکھے گا اپنے استاد کو وہیں پائے گا جس موڑ پر اسے دعاؤں کے سائے میں اگلی منزلوں کے سفر پر بھیجا تھا۔
ہم یہ جملہ اکثر سنتے ہیں کہ آج کل کے طلبا با ادب نہیں ہیں،استاد کو کچھ نہیں سمجھتے،دل جمعی سے کام نہیں کرتے،استاد کی نصیحت پر کان نہیں دھرتے۔وغیرہ وغیرہ
یہ دنیا عمل کی جولاں گاہ ہے۔یہاں وہی کچھ ملے گا جو ہم بوئیں گے۔جو بیج ہم آ ج بو رہے ہیں کل وہی فصل کاٹنی تو پڑے گی۔
ایسے بھی شاگرد تاریخ نے دیکھے،زمانے نیخود جن کی مثال دی۔صحابی رسول عبداللہ بن عباس اپنے استاد حضرت زید بن ثابت کو مدینہ کی گلیوں میں دیکھتے تو دوڑ کر ان کے پاس پہنچ جاتے۔وہ سواری پر چڑھنے لگتے تو ان کے پاؤں خود رکابوں میں ڈالتے۔اسی طرح استاد اور شاگردی کی روایت کی سب سے خوبصورت مثال سقراط اور افلاطون کی ہے۔ سقراط انسانی تاریخ میں بے پناہ علم کی علامت ہے، مگر اس کا تعلق آج کل کی اصطلاح میں متوسط بلکہ زیریں متوسط طبقے سے تھا۔ اس کے برعکس افلاطون کا تعلق طبق? امرائ سے تھا، لیکن سقراط کی شخصیت اور علم میں ایسی کشش تھی کہ اس نے طبقاتی نفسیات کے فرق کو مٹا ڈالا تھا اور افلاطون کو سقراط سے ایسی محبت تھی کہ وہ اس کے لیے جان بھی دے سکتا تھا۔ سقراط کو موت کی سزا ہوگئی تو افلاطون کے لیے اپنے ملک میں رہنا محال ہوگیا۔ اسے محسوس ہوتا تھا کہ ایسی جگہ پر کیسے رہا جاسکتا ہے جہاں سقراط کو موت کی سزا دی گئی ہو۔ چنانچہ اس نے اپنا ملک چھوڑ دیا اور کئی سال تک وہ اِدھر اْدھر بھٹکتا رہا۔وطن واپس لوٹنے پراس نے اپنے استاد کے افکار پر ہی کام کیا اور انہیں(سقراط) حیات دوام حاصل ہوئی۔
میرے اور آپ کے زمانہ طالب علمی میں ایک عظیم استاد اور ایک عظیم شاگرد کے تعلق کے معیار کے طور پر علامہ محمد اقبال اور ان کے استادِ محترم مولوی میر حسن کا رشتہ یاد کیا جاتا تھا۔علامہ اقبال کے سکول کے اساتذہ میں مولوی میر حسن بھی شامل تھے جن سے عقیدت اور احترام کا رشتہ اس قدر مضبوط تھا کہ علامہ اقبال کی علمی خدمات کی بنا پر جب ان کو انگریز حکومت کی جانب سے سر کاخطاب دینے کا اعلان ہوا تو علامہ اقبال نے کہا کہ وہ اس اعزاز کو صرف اور صرف اس شرط پر قبول کریں گے اگر ان کے استادِ محترم کو بھی شمس العلمائ خطاب سے نوازا جائے گا۔حکومت برطانیہ کی طرف سے کہا گیا کہ خطاب ملنے کے لئے ضروری ہے کہ شخصیت کی کوئی تصنیف ہو۔علامہ محمد اقبال نے فرمایا میں خود ان کی زندہ تصنیف ہوں۔علامہ اقبال کا یہ جواب اس قدر پر تاثیر تھا کہ حکومت کو ان کی بات ماننی پڑی۔
اسی طرح داغ دہلوی جن کو اقبال اپنا استاد مانتے تھے ان کی شان اس طرح بڑھائی کہ شاعری میں ان کی خدمات کی کھل کر تعریف کی ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے داغ? کو دلّی کا آخری شاعر کہا ہے۔ اپنے عزیز استاد کی وفات پر علامہ اقبال نے کچھ یوں انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔چند اشعار ملاحظہ ہوں
اشک کے دانے زم?ن شعر م?ں بوتا ہوں م?ں
تو بھی رو اے خاک دلی! داغ کو روتا ہوں م?ں
اے جہان آباد، اے سرما?ہ بزم سخن
ہوگ?ا پھر آج پامال خزاں ت?را چمن
وہ گل رنگ?ں ترا رخصت مثال بو ہوا
آہ! خالی داغ سے کاشانہ و اردو ہوا
تھی نہ شاد کچھ کشش اسی وطن کی خاک میں
وہ مہ کامل ہوا پنہاں دکن کی خاک میں
اٹھ گئے ساقی جو تھے، مخانہ خالی رہ گا
ادگار بزم دہلی اک حالی رہ گا
تارخ کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ جہاں استاد کی عظمتوں اور اس کی شان میں لکھے جانے والے قصیدوں کی بہتات ہے وہیں ایسے شاگروں کی فہرست بھی بڑی طویل ہے جنہوں نے اساتذہ کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور بدلے میں کامرانی اور سرفرازی سے نوازے گئے۔
کچھ شاگرد واقعتاً لفظ شاگرد کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ایسے بھی ہیں جو استاد کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔ ان کی نصیحتوں پر پورے طور سے عمل کرتے ہیں۔استاد کی مرضی کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں۔استاد کی عزت پر آنچ نہیں آنے دیتے۔استاد کی باتوں کو یوں کہہ لیں پلّوسے باندھ لیتے ہیں۔استاد کو اپنی زندگی میں وہ جگہ دیتے ہیں جو شاید والدین کے مقام سے بھی اوپر ہو۔اپنی ہر کامیابی والدین سے پہلے استاد سے شئیر کرتے ہیں۔استاد کی نسبت سے پہچانے جانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ سالوں بعد ملتے ہیں تو یوں سمجھئے کہ قدموں میں بچھے جاتے ہیں۔سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔کہیں راہ چلتے میں اچانک استاد سے ملاقات ہو جائے تو چہرے پر خوشی اور آنکھوں کی چمک دیدنی ہوتی ہے۔درحقیقت ایسا شاگرد ہی استاد کی عمر بھر کی کمائی ہوتا ہے۔
استاد کو شاگرد سے بس یہی کچھ تو چاہیے ہوتا ہے۔وہ ہر قسم کے لالچ ،حرص اور غرض سے پاک ہو کر شاگرد کی تربیت کرتا ہے۔والدین تو شاید اس امید پر اولاد پر پیسہ خرچ کرتے ہیں کہ بڑھاپے میں اولاد انہیں سنبھالے گی مگر استاد کو ایسی کوئی خواہش نہیں ہوتی وہ پھر بھی اپنے علم کی تمام تر دولت اپنے شاگردوں پر خرچ کرتا ہے۔
میں دعوے سے یہ بات کہوں گی کہ بھلے آج کی مادیت پرستی کے دور میں استاد کو صحیح معنوں میں عزت دینے والے طلبا تعداد میں گنتی کے ہی ہیں مگر یہ مٹھی بھر طلبا ان تمام پر بھاری ہیں جو استاد کی نصیحتوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔وہ استاد حقیقت میں کامیاب ہو جاتا ہے اگر اس کے پاس صرف چند ہی مثالی شاگر د کیوں نہ ہوں۔
اس سلسلے میں بلا شبہ والدین کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دلوں میں استاد کی عزت پیدا کرنے میں اپنے حصے کا فرض ادا کریں کیوں کہ یہ وہ طبقہ ہے جو نسلوں کی آبیاری کرتا ہے۔اللہ کے حضور دعاگو ہوں کہ وہ مثالی شاگردوں کو اپنے اساتذہ کا با ادب ہونے کی وجہ کامیابی اور کامرانی سے نوازے۔آمین
استاد اور شاگرد۔۔۔۔۔۔زمیں زادوں کا آسمانی رشتہ
Jul 23, 2023