ٹیکسز کی مد میں لوٹ مار اور برین ڈرین کا سنگین مسئلہ

تحریر: محمد عمران الحق۔ لاہور
ملک میں آئی ایم ایف کی ہدایت پر جو معاشی پالیسی اختیار کی گی ہے اس سے پاکستان کی خود مختاری کو شدید قسم کے خطرات لاحق ہیں۔آئی ایم اور عالمی اداروں سے قرض حاصل کر کے ملک و قوم کیسے ترقی کر سکتے ہیں؟۔ جب تک خود مختاری اور خود انحصاری کا دامن نہیں تھامیں گے اس وقت تک معاشی استحکام ممکن نہیں۔بجلی اور پٹرولیم مصنوعات پر لگنے والے ٹیکسز پر نظر ڈالیں تو ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں۔ قوم کو کیسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے، اس کا تصور بھی محال ہے۔توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔دسمبر 2022تک گردشی قرضہ 2536ارب روپے جبکہ رواں سال گردشی قر ضے میں 343ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک سال کے دوران کنڈے کے ذریعے 230ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی اور لائن لاسز 113ارب روپے تک پہنچ گے ہیں۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی فنڈز کی شرائط پر بجلی کی قیمت میں 4.96روپے فی یونٹ اضافہ کرنے کا فیصلہ قابل مذمت ہے مگر حقیقت میں عوام پہلے ہی ہوشربا بلوں کی وجہ سے پریشان اور ان کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ایک ماہ کے دوران بجلی کی قیمت میں تین مرتبہ اضافہ کرنا حکمرانوں کی بے حسی کی عکاسی کرتا ہے۔ حالیہ اضافے سے بنیادی ٹیرف24روپے سے بڑھ کر 29روپے اور بجلی کا ایک یونٹ 50روپے سے تجاوز کر جائے گا۔ میں یہاں ایک با ت قوم کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ کپیسٹی چارجز شامل کرکے بجلی مہنگی کی جاتی ہے۔ نیپرا کی جانب سے کپیسٹی چارجز شامل کرکے بجلی مہنگی کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، جس سے صارفین پر اربوں روپے کا بوجھ پڑے گا۔ بجلی مہنگی ہونے سے متعلق نیپرا کی دستاویزات میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق بجلی کی اصل اوسط پیداواری قیمت 6روپے 73 پیسے فی یونٹ ہے جبکہ نیپرا نے بجلی کی پیداواری قیمت میں 16 روپے 22 پیسے فی یونٹ کپیسٹی چارجز شامل کردیے ہیں، جس سے بجلی کی قیمت 6 روپے سے 22 روپے 95 پیسے فی ہونٹ ہوگئی۔ رواں مالی سال میں 124 ارب 86 کروڑ یونٹ بجلی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ بجلی کی خالص پیداواری لاگت 801 ارب 25 کروڑ آنے کا امکان ہے جبکہ پیداواری لاگت میں 2ہزار 25 ارب روپے کپیسٹی چارجز شامل کیے گئے ہیں۔ نیپرا دستاویزات کے مطابق درآمدی کوئلے سے بجلی کی اصل پیداوری لاگت 16روپے 71پیسے فی یونٹ ہے اور 23 روپے کپیسٹی چارجز کے شامل کرکے درآمدی کوئلے سے بجلی کی پیداوری لاگت 40 روپے34 پیسے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ پاکستان میں پیٹرول کی خالص قیمت 161 روپے فی لیٹر بنتی ہے جس پر91 روپے 36پیسے کے مجموعی ٹیکس عائد ہیں۔اسی طرح ڈیزل کی قیمت 166روپے فی لیٹر بنتی ہے جس پر 87روپے 49پیسے مجموعی ٹیکس لیا جارہا ہے۔دستاویزات کے مطابق پیٹرول پر ریفائن کے بعد 71روپے 83پیسے فی لیٹر ٹیکس عائد ہے جب کہ پیٹرل کی ایکس ریفائنری قیمت 181روپے 70 پیسے فی لیٹر ہے۔ریفائن سے پہلے پیٹرول پر 19روپے 53پیسے فی لیٹر ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔اسی طرح ریفائن کے بعد ڈیزل پر 67روپے 96پیسے فی لیٹر ٹیکس عائد کیا گیا ہے جب کہ ڈیزل کی ایکس ریفائنری قیمت 190روپے 21پیسے فی لیٹر ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکمرانوں نے عوام پر مہنگائی کے پہاڑ ڈھانے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔24کروڑ عوام کو ریلیف نام کی کوئی چیز میسر نہیں۔نوجوان مایوس ہو کر بیرون ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ ملکی حالات سے دلبرداشتہ اور بہتر مستقبل کی خاطر رواں سال کے ابتدائی 6ماہ کے دوران 3لاکھ95ہزار افراد دیار غیر چلے گئے ہیں جن میں 15ہزار انجینئر اور 1583ڈاکٹرز شامل ہیں۔سب سے زیادہ افراد 2لاکھ 23ہزار 90 پنجاب سے گے۔ ماہانہ 65ہزار 861افراد بیرون ملک جا رہے ہیں اگر برین ڈرین کا یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو پاکستان کا مستقبل خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ سالانہ بنیادوں پر 17 ہزار روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح میں 40 فیصد، 22 ہزار روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے 43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح 29 ہزار روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح 42فیصد، 44ہزارروپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے 42 فیصد اور 44 ہزار روپے ماہانہ سے زائد آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح 43 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ مہنگائی نے ہر طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شخص کو متاثر کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن