چلو تم بھی۔سفر اچھا رہے گا

فہمیدہ کوثر

جولائی اور ساغر صدیقی آپس میں مربوط ہیں جب ایک خداداد صلاحیتوں کے مالک شاعر نے جنم لیا اس نے نہ صرف خود زندگی کو مختلف انداز سے دنیا کو دیکھا بلکہ دنیا کو بھی دکھلایا زندگی کے تو کئی روپ ہیں ، ہر با ر نیاروپ کہیں غم کا سوانگ۔ تو کہیں حسرتون کابلیدان۔ کہیں پہ پانیوں پر غیر واضح عکس کہیں دل پہ کوئی گہرا نقش۔ کہیں موسم سرما کی آغوش میں اٹھکیلیاں کرتی ہوئی سردی۔ کہیں دھوپ اور تمازت کے ریگزاروں میں ننگے پاؤں دوڑتی ہوئی زندگی راقمہ کا ایک شعر ہے 
روز اک خواب سا دکھائے تو
زندگی تجھ کو مسئلہ کیا ہے
ساغر صدیقی کا ہاں اجڑے دیار تشنگی۔مزار خزاں کی گود۔غم۔ عاشقی فنا زمانے کی تلخیاں اور قلب انسان میں اندھیرا جیسے موضوعات دکھ کسک اوردرد کی گھمبیرتا کوگھمبیر کرتے ہیں اور ایک درد کو آفاقیت کی معراج تک لے جاتے ہیں شاعر لکھتا ہے کہ 
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آسینوں میں
انہیں کہیں سے بلاو بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمھاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
میرے قریب نہ آو بڑا اندھیرا ہے
فرازعرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارا
کہیں سے ڈھونڈ کے لاو بڑا اندھیرا ہے 
زندگی کے کارزار میں کامیابی ایک دھوکہ ہے مسلسل برسرپیکار رھنا ہی کامیابی ہے ارادے اور ہمت سے اٹھنے والا ہرقدم ہی منزل بن جاتا ہے وگرنہ جہاں قدم تھک جاتے ہیں وہاں زوال بے بسی اور خزاں در نامرادی پر دستک دینا شروع کردیتی ہے آتش کا ایک شعر ہے
 تھکیں جو پائوں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش
گل مراد ہے منزل میں خارراہ میں ہے
 منزل کے اس تصور کو محبوب کے تصور سے سے منسلک کرکے ان صعوبتوں کو فراموش کردیے ہیں جو راہ میں حائل ہوتی ہیں بلکہ ایک مقام تو یہ بھی آتا ہے کہ محبوب ہی منزل بن جاتا ہے کہتے ہیں 
منزل غم کی فضاوں سے لپٹ کے رو لوں
تیرے دامن کی ہواوں سے لپٹ کر رولوں
آنے والے تیرے رستے میں بچھاوں آنکھیں 
جانے والے ترے پاؤں سے لپٹ کر رولوں
ایک اور جگہ لکھتے ہی کہ
کسی کے اک تبسم پر اساس زندگی رکھ لی
شراروں کو نشیمن کا نگہباں کرلیا میں نے
 ساغر صدیقی عشق کو اس قافلے سے تعبیر کرتے ہیں جسکی راھبری خود عشق کرتا ہے لہذا اس راستے میں گداز کسک غم اور تشنگی کا ملنا لازمی ہے۔
تشنگی تشنگی ارے توبہ
زلف لہراؤ وقت نازک ہے
وہ جلتی بجھتی زندگی میں روشنی کے قائل ہیں
سوچتا ہوں کہ گھر جلاڈالوں
گھپ اندھیرا ہے کچھ اجالا ہو 
کہیں روشن اجالوں میں شاعر اس اندھیرے کو پہچان لیتا ہے جو اسکے اندر اتر رہا ہے
معبدوں کے چرغ گل کردو
قلب انساں میں اندھیراہے
 کوئی بھی لکھاری یاشاعر معاشرے کی نبض کو ایک حکیم کی طرح ٹٹولتا ہے اور اسکا علاج دھونڈتا ہے اور آشکارا کردیتا ہے
اشک رواں نہیں ہے ندامت کے پھول ہیں
روٹھے ہوئے بہار سے رحمت کے پھول ہیں
ڈسنے لگی ہیں شاخ تمنا کی کونپلیں
رسوائیوں کے خار معیشت کے پھول ہیں
ایک اور انکاشعر ہے
میں بھی چپ ہوں توبھی چپ
دنیا ہے پتھر کی بستی
دکھ کارشتہ جب یہ شاعر سیاست سے جوڑتا ہے تو ایوب خاں سے یہ کہہ کر ہاتھ ملانے سے انکار کردیتا ہے کہ
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
ساغر لوگوں کے منافقانہ رویوں سے دلبرداشتہ تھا جب اسے انسانوں سے تلخ روئیے ملے تو اس نیایک کتے کو دوست بنالیا جو مرتے دم تک اس کے ساتھ رہا
چلو تم بھی سفر اچھا رہے گاذرااجڑے دیاروں تک چلیں گے
جنوں کی وادیوں سے پھول چن لو وفا کی یادگاروں تک چلیں گے

ای پیپر دی نیشن