’’وائرل کلچر ‘‘کا وائرس ۔۔؟

Jul 23, 2023

سید عارف سعید بخاری

سیّدعارف سعید بخاری 
Email:arifsaeedbukhari@gmail.com
گذشتہ دنوں عائشہ منیب نامی جوانسال لڑکی نے شادی کی ایک تقریب میں معروف انڈین گانے’’میرا دل یہ پکارے آجا ۔۔۔‘‘ پرجورقص کیا تھا اس کی وڈیو سوشل میڈیا ’’یو ٹیوب ‘‘اور ’’فیس بک‘‘پر وائرل ہوئی بعدازاں وڈیوکی مقبولیت کا بھرپور پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اس چند منٹ کی پرفارمنس کو بیسیوں بلکہ لاکھوںخواتین و حضرات نے دیکھا ،پسند کیا اور دھڑا دھڑ شیئر کیا ،یوں خاتون کے فالوورز کی تعداد 2کروڑ سے تجاوز کر گئی باالفاظ دیگر یہ تاثر بھی پیدا کیا گیا کہ خاتون نے ایک مختصر دورانیے کی وڈیو سے 2کروڑ روپیہ کمایا ۔اسی طرح علیزہ سحر نامی خاتون بلاکر کا ایک انٹرویو ’’یو ٹیوب‘‘ چینل پر نشر کیا گیاجس میں خاتون نے دعویٰ کیا کہ وہ ماہانہ 50لاکھ روپیہ ’’یو ٹیوب‘‘ کے ذریعے کما رہی ہے ۔کچھ دن بعد اسی خاتون کے والدبزرگوار کا انٹرویو ’’آن ایئر‘‘ دیکھنے اور سننے کا اتفاق ہوا تو محترم کا کہنا تھا کہ ’’ہماری اس ہونہار اورباصلاحیت بیٹی نے ’’یوٹیوب ‘‘کے ذریعے پیسہ کما کر انہیں 2کروڑ روپے کا ایک عالی شان گھر بھی خرید کر دیا ہے ‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ جو کام ان کی اس بیٹی نے کیا ہے یہ کام اگر اُن کا بیٹا بھی ہوتا تو کبھی یہ کارنامہ سرانجام نہ دے پاتا ۔۔گویا سوشل میڈیا یعنی’’ یو ٹیوب‘‘ اور’’ فیس بک‘‘ پر بھارتی اور پاکستانی لڑکیاں حتیٰ کہ’’ آنٹیاں‘‘ بھی فلمی گانوں پر رقص کے عارضے میں مبتلا ہو چکی ہیں ۔اور اسی کام کو اپنا ذریعہ معاش بنا رکھاہے ۔۔۔اسی طرح ضرورت رشتہ ، ضرورت چوکیدار ،ڈرائیور یا ملازم کے حوالے سے بھی بیسیوں پوسٹس سوشل میڈیا پر وائرل کی جا رہی ہیں ۔ان پوسٹس میں حصول رشتہ کیلئے لیڈی ڈاکٹر ز سمیت اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین ظاہر جا رہی ہیں ،گو کہ ان میں سے اکثر پوسٹ ’’فیک ‘‘ہوتی ہیں ۔جن میں بھاری تنخواہوں کا لالچ دے کر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے ۔بعض نوجوان بھی نوسربازی کے اس دھندے میں ملوث پائے جاتے ہیں ۔غیر شائستہ وڈیوز کی پوسٹنگ بھی معمول بن چکا ہے ۔ ان سبھی کا مقصد اپنی ریٹنگ بڑھا کر ڈالر کمانا ہے ۔’’جھوٹ‘‘کی بنیاد پر ڈالروں کا حصول اب ایک دھندے کی صورت وسعت پا رہا ہے ۔لیکن کوئی ان قباحتوں کو روکنے والا نہیں ۔
ماضی میں رقص و سرودکی محفلیں عموماًقحبہ خانوں ،ہوٹلوں ،یا کسی رئیس زادے کے حجرہ مبارک میں سجا کرتی تھیں ۔۔اور وہاں بھی جسم کی نمائش کا رواج نہ تھا ۔۔بلکہ ’’طوائفیں‘‘خود کو اعضاء کی شاعری تک ہی محدود رکھتی تھیں اور تماش بین بھی صرف رقص سے ہی محظوط ہوتا تھا ۔۔۔کہیں کہیں مخصوص خواتین کو رقص کی آڑ میں جسم فروشی کے لئے استعمال کیا جاتا تھا ۔۔اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کیلئے اور اپنے دل و دماغ میں بیٹھے ہوئے شیطانی خناس کی وجہ سے خواتین کو ’’کوٹھے‘‘کی زینت بنانے میں بھی مرد حضرات کا کردارہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی عورت مر د کی سرپرستی کے بغیر دھندہ نہیں کر سکتی ۔اور برائی کے تمام ہی دھندے بااثر مافیا کی سرپرستی کے بغیر چل ہی نہیں سکتے۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا میں آج بھی لاکھوں ،کروڑوں کی تعداد ایسی بچیوں کی ہے جو ایسے گندے ماحول میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اور یہاں سے نکلنا ان کے لئے دشوار ہی نہیں بلکہ زندگی اورموت کا مسئلہ بن چکا ہے ۔اسلامی معاشرے میں اس قسم کی قباحتوں کی کوئی گنجائش نہیں لیکن مغرب سمیت تقریباً سبھی مسلم ممالک میں یہ خرابات موجود ہیں ۔اور کوئی حکومت ان پر مکمل پابندی بھی نہیں لگا سکتی۔۔انسانی حقوق کی علمبردار قوتیں بھی اس دھندے کو روک نہیں سکتیں ۔لیکن اب جدید ایجادات اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے تمام پردے ’’وا‘‘ کر دئیے ہیں ۔یہود ونصاریٰ کا سوشل میڈیا پر مکمل کنٹرول ہے ۔’’یوٹیوب ‘‘پر چینل بنا کر ڈالر کمانے کی سہولت عوام وخواص کو دی جا چکی ہے ۔چینل بنانے کیلئے کوئی معیار مقرر نہیں ،عورت ہو یا مرد ، بوڑھا ہو یا جوان ۔ناخواندہ ہویا اعلیٰ تعلیم یافتہ ۔اپنی سوچ و فکر کے مطابق اپنا چینل باآسانی بنا سکتا ہے ۔۔بس تھوڑی سی محنت اور معمولی سا سرمایہ درکار ہوتا ہے پھر ’’یو ٹیوب ‘‘کی طرف سے ڈالروں کی بارش شروع ہو جاتی ہے ۔بندہ اپنی صلاحیتوں پر نازاں ہوتا ہے کہ اب وہ کروڑپتی بن جائے گا اور وہ بھی گھر بیٹھے ۔‘‘یوٹیوب‘‘چینل کو مونیٹائز کروانے کیلئے ایک ہزار سبسکرائبرز اور وڈیوز کا رننگ ٹائم4000گھنٹے مقر ر کیا گیا ہے ۔اور اب شنید یہ ہے کہ اس میں بھی کمی کر دی گئی ہے ۔سبسکرائبر بڑھانے کیلئے ’’فنکاریاں ‘‘بھی عام ہیں اور جینوئن طریقہ کار بھی موجود ہے ۔ہماری قوم کا یہ المیہ ہے کہ ہم لوگ امیرہونے کیلئے شارٹ کٹ ڈھونڈھتے ہیں ۔اور فنکاریاں بھی ہمارا ایک ہنرہے جسے جان کر دنیا بھی حیران و ششندر رہ جاتی ہے ۔۔
ایک محاورہ ہے کہ ’’ناچ‘‘ میری بلبل تجھے پیسہ ملے گا‘‘ ۔۔۔ اسی عارضے میں ہم مبتلا ہو چکے ہیں ۔اورمقام افسوس ہے کہ جہاں قوم کی بہو بیٹیاں سوشل میڈیا پر ’’ناچ‘‘ رہی ہیں ۔وہاں ہم لوگ مزید جذباتی ہو کر واہ واہ ۔بہت خوب ، زبردست ، کیا ٹھمکا ہے اور کیا خوبصورتی ہے ۔لکھ کر اس کام کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں ۔۔گویا ہم قوم کی بہو بیٹیوں کو یہ ترغیب دے رہے ہیں کہ گھر بیٹھے آپ بھی فلمی گانوں پر رقص کرکے یا خود گا کر ڈالر کمائیں ۔اْورْ کوئی ڈھنگ کا کام نہ کریں ۔پڑوسی ممالک بھارت یا بنگلہ دیش میں ’’گلوکار ی‘‘ان کے کلچر کا حصہ ہے ،وہاں چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں گانا گاتی ہیں ۔جسے معیوب نہیں سمجھا جاتا ،لیکن ہمارا کلچر مختلف ہے ،یہاں اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔پھر بھی ہم ڈالروں کے چکر میں اسی کلچر کو زندگی کا حصہ بنانے میں لگے ہیں ۔
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آخر صدی میں ایسا وقت آئے گا کہ ’’گھر گھر ناچ گانا ہوگا ‘‘۔ موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اب قیامت کی یہ نشانی بہت حد تک سچ ثابت ہو چکی ۔۔۔کیونکہ گھروں میں رقص کرکے سوشل میڈیا پرلوگوں کو دکھایا جا رہا ہے ۔بات گھروں سے نکل کر باہر تک آ چکی ۔ہماری شرم و حیاء کا جنازہ نکل چکا ۔کوئی فلمی گانوں پر ناچ رہا ہے تو کوئی سڑکوں ،پارکوں میں ،کھیتوں میں چہل قدمی کرکے اپنے جسم کی نمائش کررہا ہے ۔۔۔ایسی ایسی وڈیوز وائرل کی جا رہی ہیں کہ جس میں عورت کا انگ انگ نمایاں ہے ۔۔۔عریانی نہیں لیکن دیکھنے والے کو جسم کے سبھی خدوخال دکھا کر داد وصول کی جا رہی ہے ۔۔ہم لوگ اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے تمام تر اسلامی و اخلاقی حدود و قیود کو بھلا کر ڈالروں کے لئے سرپٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں ۔۔۔
المیہ یہ ہے کہ اب ہم کسی بزرگ یا استاد ، والدین ،بہن ،بھائی ،دوست احباب کی نصیحت بھی سننے کو تیار نہیں ۔ہمیں پیسہ چاہیے ،چائے وہ جسم دکھا کرملے یاناچ گا کر ملے ۔ہمیں اس کے علاوہ کسی سے کوئی سروکار نہیں ۔۔اس دھندے کو روکنے والوں کی بے بسی بھی افسوسناک حد تک قابل رحم ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں ۔۔سب دیکھ رہے ہیں مگر خاموش ہیں ۔ان کے دل خون کے آنسو روتے ہیں ۔ان کا دل زخمی ہے ،ایک تڑپ ہے کہ جس کا اظہار بھی نہیں کر سکتے ۔ہم ’’ڈالروں ‘‘کی دوڑ میں اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا ۔ہماری بہو بیٹیاں یہ بھی بھول چکیں کہ آنے والے کل میں ’’سوشل میڈیا ‘‘پر ناچ کر ڈالرکمانے والی خاتون اپنی بیٹیوں کو کیا جواب دے گی ۔۔۔؟ کہ امی جان ! آپ تو کافی مشہور ہیں ،ہمارے سکول میں بھی بچوں کے پاس آپ کی رقص والی وڈیو ہے ۔بچے بڑے شوق سے دیکھتے ہیں ۔۔۔اور پھر امی سے مخاطب ہوکر بیٹی جب یہ کہے گی کہ’’ میری پیاری امی جان ! آپ گریٹ ہو ،میں بھی آپ کی طرح بڑی ہو کر’’ رقاصہ‘‘ بنوں گی ، ڈھیر سارے ڈالر کماؤں گی ‘‘۔یہ وہ وقت ہوگا کہ جب ماںاپنی ہی بیٹی کوایک زوردار طمانچہ منہ پر رسید کرے گی اور کہے گی ۔بیٹا ! ہرگز نہیں ،میری تو مجبوری تھی کہ اور کوئی کام نہ کر پائی ،لیکن اب تو میں نے اس قدر ڈالر کما لئے ہیں کہ تمہیں یہ کام کرنے کی ضرورت نہیں ۔بیٹا ! آپ پڑھائی کرو ، ڈاکٹر بنو یا کوئی آفیسر ۔۔۔اور عزت  سے زندگی بسر کرو‘‘ ۔۔مجھے معاف کر دینا کہ میں نے اپنی زندگی کو سکھی بنانے کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ۔۔۔
ہمیں اخلاقی اقدار کے تحفظ کیلئے اس کلچر کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی ۔حکومت کواس معاملے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے کوئی ٹھوس پالیسی اپنا ناہو گی ۔ورنہ مستقبل میں ہمیں تباہی بربادی سے کوئی نہیں بچا پائے گا ۔

مزیدخبریں