آئین کے الفاظ

ملک کی سب سے بڑی عدالت کے کمرا نمبر ایک کے مناظر قابل دید تھے،بڑے کیس کے بڑے فیصلے کا انتظار کیا جارہا تھا، عدالتی کارروائی کور کرنے والے صحافی ہوں ، وکلا یا پھر فیصلہ سننے کیلئے آنے والے سیاستدان،سبھی ایک ہی بات پر اظہار رائے کررہے تھے۔ فیصلہ ہوگا گیا؟ یہ کیس دلچسپ تھا منفرد اور اہم ترین بھی۔ ماضی قریب میں بہت سے سیاسی نوعیت کے کیس عدالت عظمی میں آئے لیکن مخصوص بنچ کے متوقع فیصلوں کے الزامات اور اہم ترین کیسز پر مطالبوں کے باوجود تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل نہیں دیا جاتا لیکن اس کیس میں تمام ججز نے کیس سنا اور بنچ کا فیصلہ سب کیلئے سرپرائز تھا۔ سب سے بڑا سرپرائز یہ تھا کہ اس کیس میں کوئی بھی وکیل نہ جیتا، درخواست گزار کی استدعا مسترد،دفاع کرنے والے وکلا بھی ناکام۔اور جیتا وہ جس کی نہ درخواست تھی نہ وکیل۔ ججز نے نشستیں سنبھالیں تو چیف جسٹس نے فیصلے کے بارے میں اتنا بتایا کہ آٹھ پانچ کے تناسب کا فیصلہ ہے اور پھر جب انہوں نے ان اکثریتی ججز کے نام ہی لئے تھے کہ کچھ وکلا نے سرگوشیوں میں مبارکبادیں دینا شروع کردیں۔ اور پھر جیسے جیسے فیصلہ سنایا جاتا رہا ان کی خوشی خوشگوار حیرت میں بدلتی ہوئی ناقابل یقین حد تک پہنچ گئی، وہ کچھ مل رہا تھا جو انہوں نے سوچا بھی نہ تھا۔ ہمارے آئین کو بنے پچاس سال مکمل ہوچکے ہیں ان پانچ دہائیوں میں اس آئین میں دو درجن سے زائد ترامیم کی جاچکی ہیں۔ ان میں کئی ترامیم فوجی آمروں کے ادوار میں ان کے اقتدار کو طول دینے کیلئے کی گئیں،جمہوری ادوار میں آئین میں کئی ترامیم ایسی بھی ہوئیں جو کسی خاص صورتحال میں پیدا ہونے والے ابہام کو ختم کرنے کیلئے تھیں۔ ایسی کئی شقیں تھیں یا اب بھی ہیں جن میں ابہام موجود ہے یا وہاں کچھ خاص حالات کے تحت خاموشی ہے اور معاملات قابل وضاحت ہیں۔ اکثر تو آئین بڑا واضح ہے۔ لیکن جب عدالتوں میں ان سادہ، واضح اور عام فہم شقوں کی تشریح کی گئی تو آئین ہی بدل گیا۔ جیسے آئین میں واضح ہے کہ اگر قائد ایوان کے انتخاب،تحریک عدم اعتماد ،آئینی ترامیم اور مالی بل یعنی بجٹ کی منظوری کے عمل میں کوئی رکن پارٹی کیخلاف ووٹ دے گا وہ نااہل قرار پائے گا پھر اس کی نااہلی کا بھی بڑا واضح طریقہ کار بتادیا گیا ہے۔ اس میں کوئی بات ایسی نہیں جو باآسانی سمجھ میں نہ آئے لیکن جب یہ معاملہ عدالت عظمی میں گیا تو فیصلہ یہ آیا جب کوئی رکن ان معاملات میں ووٹ دیگا تو اس کا ووٹ بھی گنا نہیں جائے گا اور وہ نااہل بھی قرار پائے گا اب مستقبل میں کبھی ایسا معاملہ آیا تو کنفیوژن یہ ہوگی کہ خلاف ورزی کا معاملہ آئینی نکتہ نظر سے دیکھا جائے یا پھر عدالتی فیصلے کے تناظر میں۔

 مخصوص نشستوں کے کیس میں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ سامنے آگیا۔ سوال یہ تھا کہ کیا ایک ایسی جماعت جس نے انتخابات میں حصہ نہ لیا ہو اور نہ ہی مخصوص نشستوں کی مقررہ وقت کے اندر فہرست جمع کرائی ہو اس کو مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں ؟ اور اگر ان کو یہ نشستیں نہیں مل سکتیں تو باقی جماعتوں میں تقسیم ہوسکتی ہیں یا انہیں خالی چھوڑا جاسکتا ہے؟ لیکن جواب یہ آیا کہ ان ارکان سے دوبارہ اس ایک جماعت جو اس کیس میں فریق بھی نہیں تھی میں شمولیت کا بیان حلفی لیا جائے اور پھر اس جماعت کو مخصوص نشستیں دی جائیں۔ اس اہم ترین کیس کی سماعت پاکستانی عوام نے ٹی وی چینلز پر براہ راست دیکھی۔ یقینا یہ سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس صاحب کا بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے تمام ججز کو ایک اہم کیس میں ساتھ بٹھا کر تمام تر کارروائی کو سب کے سامنے لاکر شفاف ترین بنادیا یہاں ان کے کچھ ریمارکس انتہائی اہم لگے۔ جب انہوں نے کہا کہ ہم نے آئین کے الفاظ کے مطابق فیصلہ دینا ہوتا ہے آئین کی روح اور انصاف کی بات آجائے تو یہاں ہر کسی کیلئے اس کی تعریف بدل جاتی ہے یہ شاید اس کیس ہی نہیں بلکہ ہمارے عدالتی نظام کے تناظر میں اہم ترین ریمارکس اور ایک گائیڈ لائن تھی جہاں آئین کے الفاظ پیچھے رہ جائیں اور پھر سب کا اپنا اپنا انصاف اور آئین کی اپنی اپنی تعریف شروع ہوتی ہے پھر وہیں سے وہی نظریہ ضرورت بھی جنم لیتا ہے جو ہماری عدالتی تاریخ کا سیاہ باب بنا رہا ہے جس نے فوجی آمروں کو حکومت کرنے اور آئین تک میں ترامیم کا اختیار دیا تو کیوں نہ اپنی اپنی تشریح کی بجائے آئین کے الفاظ کو مقدم ٹھہرایا جائے۔ عدلیہ کو متنازعہ بنانے کی بجائے جہاں آئین میں ابہام دکھائی دے معاملہ واضح کرنے کیلئے انہی کے پاس بھیج دیا جائے جنہوں نے اسے تخلیق کیا۔ وضاحت تو وہی بہتر کرسکتا ہے جس کے الفاظ ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن