انقلابوں کی باتیں اور پاکستان  (آخری قسط)

16 دسمبر 2010ء کی بات ہے تیونس کا 26 سالہ نوجوان بوعزیزی ریڑھی لگانے کے حوالے سے میونسپل افسروں سے تنگ ہونے کے باوجود ہمت نہیں ہارا تھا اور اپنے کام کیلئے اتنا قرض لینے میں کامیاب ہو گیا تھا کہ نئے سرے سے اپنی سادہ سی زندگی کا آغاز کر سکے۔ اگلے روز وہ نئے عزم اور پرانی ریڑھی کے ساتھ کام پر نکلا تو اسے پھر میونسپل افسر کا سامنا کرنا پڑ گیا جس نے اس کا چالان کرکے سامان ضبط کر لیا۔ قسمت کا مارا اس بار ہمت کا ہارا بھی بن گیا۔ بوعزیزی یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا اور اپنے آپ کو آگ لگا لی۔ تیونس میں کافی عرصہ سے کرپشن کی گردش کرتی صداؤں اور اقرباً پروری، ناانصافی کی ہواؤں کا دور دورہ تھا۔ احتجاج بھی ہو رہے تھے لیکن اس واقعہ سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وسیع پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے احتجاج کا سلسلہ سرحدیں پار کرکے مصر، شام، لیبیا اور یمن تک جا پہنچا۔ مشرق وسطیٰ کے باقی ممالک جو اس ہولناک رخ اختیار کر جانے والے احتجاج سے عملی طور پر تو محفوظ رہے تھے فکری طور پر اس سے لاتعلق نہ رہ سکے اور اپنے عوام کو کئی طرح کے ریلیف دینے پر مجبور ہو گئے۔ یہ احتجاج جو دراصل سوشل میڈیا سے شروع ہوا تھا اسے عرب سپرنگ کا نام دیا گیا۔ اس سے تیونس میں تو حالات سیاسی طور پر کافی بدلے۔ صدر زین العابدین کے 23 سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوا اور عام انتخابات کرا دیئے گئے۔ سیاسی تبدیلی تو آئی لیکن معاشی اور سماجی مسائل کا بہت زیادہ تدارک نہ ہو سکا۔ 

مصر میں عرب سپرنگ کے نتیجہ میں حسنی مبارک کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اخوان المسلمین نے الیکشن جیتا اور محمد مرسی صدر بن گئے۔ کچھ عرصہ تو معاملات اس طرح چلتے رہے پھر جنرل السیسی نے محمد مرسی کے اقتدار کا تختہ الٹ کر کنٹرول سنبھال لیا اور اس دوران اخوان کے سینکڑوں کارکن مارے گئے۔
شام قدرے زیادہ اور یمن کچھ کم خانہ جنگی کا شکار ہو گئے جو اب تک جاری ہے اور لیبیا میں قذافی کی مستحکم حکومت کا خاتمہ ہو گیا اس کے ساتھ ہی اس ترقی کو بھی خدا حافظ کہہ دیا گیا جس کے معترف ہمارے اس وقت کے صدر مشرف بھی تھے اور لیبیا کی طرز کے ڈیم پاکستان میں بنانے کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ لیبیا میں بھی امن، استحکام اور ترقی پر باہمی لڑائی کی طویل چادر تان دی گئی جو ابھی تک اسی طرح تنی ہوئی ہے۔ یوں عرب سپرنگ کو مجموعی طور پر ایک ناکام انقلاب قرار دیدیا گیا۔ 
ذرا سری لنکا میں 2 برس قبل گزرے واقعات کا جائزہ لیں۔ معاشی ناہمواریوں سے بری طرح تنگ عوام اٹھے اور حکومت بدلنے میں کامیاب ہو گئے لیکن معاشی مسائل آج بھی سری لنکا کا بہت بڑا درد سر بنے ہوئے ہیں۔ 
عرب سپرنگ اور سری لنکا کے حالات کو دیکھیں تو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ان دونوں کے پیچھے تربیت، اچھی ٹیم واضح پروگرام اہم اقدامات مفقود تھے اور جذباتی عنصر زیادہ تھا۔ انقلاب فرانس کے داخلی طور پر کامیاب نہ ہو سکنے کی بڑی وجہ بھی اس کا جذباتی رخ اور اچھی قیادت کا نہ ہونا تھا۔ روسو نے جب لکھا کہ ’’شہزادی نے بھوک کے مارے عوام کو روٹی نہ ملنے پر کیک (درحقیقت ایک مہنگی روٹی کا ذکر تھا جو عرف عام میں کیک بن گیا) کھانے کا مشورہ دیا ہے تو وہ محض ایک افسانوی بات تھی جو ملکہ میری لوئس سے منسوب کر دی گئی حالانکہ ملکہ میری لوئس تو اس وقت صرف 12 برس کی تھی اور فرانس کے حالات سے لاتعلق اپنے آبائی ملک آسٹریا میں بچپن گزار رہی تھی۔ یہ ہوتے ہیں جذباتی انقلاب کے خوفناک رخ جو صدیوں تک حقائق کو بھی بدل کر رکھ دیتے ہیں اور پھر جذبات کی رو میں بہہ کر بہت سے ثمرات ضائع کر دیتے ہیں۔ 
دنیا بھر میں کئی انقلاب آئے ناکام انقلابات کا جائزہ لیا جائے تو 1857ء کی جنگ آزادی، ہنگری کی جدوجہد، عرب سپرنگ سے لیکر سری لنکا تک ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ دکھائی پڑتا ہے۔ 
انقلاب کامیاب ہوئے یا ناکام … سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ برپا کیوں ہوئے غور کریں تو یہی حقائق سامنے آتے ہیں کہ معاشی ناہمواریاں، سماجی ناانصافیاں، ٹیکسوں کے غیر متوازن بوجھ، اقرباً پروری اور میرٹ کی دھجیاں لوگوں کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کرتی رہیں۔
 پاکستان کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا لوگ تیزی سے بڑھتے ہوئے مسائل کا سامنا نہیں کر پا رہے۔ تنخواہ دار طبقہ پر براہ راست اور عوام پر بلاواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے جو آئے روز ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ جن گھروں میں تین وقت کا کھانا بنتا تھا وہاں اب زیادہ تر بھوک ناچتی ہے۔ لوگ ایک ایک کرکے اپنی قیمتی اشیاء￿ سے ہاتھ دھوتے جا رہے ہیں جو کچھ سنبھال رکھا تھا اسے بلوں کی ادائیگی کیلئے بیچا جا رہا ہے۔ اس پر بھی بس نہیں بلکہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد عوام ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں تو انہیں دھکوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ انصاف کے مراکز میں تو اکثر جیبیں الٹا کر تلاشی تک لے لی جاتی ہے اور پھر بھی داد رسی کی بجائے بقول فیض ’’پولے کھاندیاں وار نہ آؤندی اے‘‘ تعلیمی ادارے عام آدمی کے بچوں کیلئے ایک ایسے دیو کا غار بن چکے ہیں جو ان کا سب کچھ نگل جاتا ہے اور پھر بھی رہائی نہیں دیتا۔ اس سب سے نمٹ کر نوجوان عملی زندگی میں قدم رکھنا چاہیں تو اقرباً پروری اور اشرافیہ کے سفارشی ماحول کے زبردست نیزے سینے کے پار ہو جاتے ہیں اور جب راہیں اٹ جاتی ہیں تو سو طرح کے نشتر اور آ لگتے ہیں کسی کام سے دفاتر کا رخ کریں تو منہ پھاڑ قسم کی ڈیمانڈیں جان نہیں چھوڑتیں۔ جب عوام گبھرا کر موت کا ہی سوچنے لگتے ہیں تو فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ ایک دو فیصد اشرافیہ کو ان کے ٹیکسوں سے پٹرول، ڈیزل، گیس، بڑی بڑی جہازی سائز کی گاڑیاں اور محلات مفت دینے والا نظام ان کیلئے کفن کا حصول بھی مشکل ترین بنا دے گا۔
اہل اختیار سے گزارش ہے کہ وطن عزیز میں انقلاب کے تمام لوازمات پورے ہو چکے ہیں لیکن خوفناک امر یہ ہے کہ کوئی تربیت دینے والا ہے نہ منظم کرنے والا۔ نہ ہی کسی کے پاس کوئی مناسب پروگرام ہے۔ ان حالات میں معاشروں کے انقلابی حادثات کا شکار ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو قومیتوں کا مسئلہ بھی بہت سنگین ہے جو ان معاشروں سے کہیں زیادہ شدید ہے جہاں کے انقلابات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ 
صورتحال کا تقاضا ہے کہ ملک کو انقلابی حادثہ سے دوچار ہونے سے روکنے کیلئے ارباب اختیار اپنے کانوں پر جوں رینگنے کی اجازت دے ہی ڈالیں اور پانی سر سے بلند ہونے سے پہلے ہی سوچ بچار کر لیں۔ اپنی عیاشیاں نما مراعات کم کرکے تھوڑا ہی سہی سادگی سے گزارا کرنا سیکھ لیں۔ لوگوں کو انصاف دیں، میرٹ کی طرف نظر کرم کریں اور تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے مل بیٹھ کر ملکی مسائل کا حل تلاش کریں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ دیانتداری سے مل بیٹھنا ہی ہے۔ کچھ نہ سمجھ کر ہٹ دھرمی سے ڈٹ جانا تو کوئی اچھی بات نہیں ہوتی۔ سوال ہو سکتا ہے کہ اشرافیہ اپنی مراعات کیوں چھوڑے تو جواب یہ ہے کہ حکمرانی کیلئے ملک اور رادھا کو ناچنے کیلئے نو من تیل ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ رادھا ناچ سکے گی اور نہ ہی ٹھاٹ باٹھ سے حکمرانی ہو سکے گی۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ چھینا جھپٹی خواہشات کی تکمیل کیلئے ہو یا اقتدار پر قبضے کیلئے، تعمیری عمل نہیں توڑ پھوڑ کی علامت ہوتی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن