منگل ‘ 16 محرم الحرام 1446ھ ‘ 23 جولائی 2024ء

سپیکر قومی اسمبلی نے سرکاری اجلاس میں لنچ اور ڈنر پر پابندی لگا دی۔
چلیں اسپیکر قومی اسمبلی کو تو خیال آیا کہ یہ جو سرکاری پیسے سے آئے روز اجلاسوں میں میٹنگز میں ملاقاتوں میں نائو نوش کی محفل جمتی ہے۔ اس پر پابندی لگا دی۔ یہ مناسب اقدام ہے کیونکہ اس طرح ماہانہ سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے ارکان اسمبلی ، وزرا اور قومی اسمبلی کے سٹاف کے مہمانوں کی مہمانداری پر خرچ ہوتے ہیں۔ اب انہوں نے کہا ہے کہ اجلاسوں میں ریفرشمنٹ بھی ختم کی جائے اور اجلاس ڈنر اور لنچ کے اوقات میں نہ رکھے جائیں ، کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں سوائے اخراجات میں اضافے کے عام طور پر ان اوقات میں جس میں شام کی چائے بھی شامل ہے صرف کھانے پینے پر توجہ دی جاتی ہے۔ کام کا کیا ہے۔ وہ تو ہوتے رہتے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں تو صاحب کی چائے بھی سرکاری خرچ سے پی جاتی ہے جس میں دیگر لوازمات بھی شامل ہوتے ہیں۔ ایسا شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتا ہو گا۔ ایک مرتبہ قائد اعظم نے اجلاس طلب کیا چائے کا وقت تھا۔ ویٹر چائے لے کر آیا تو اسے قائد اعظم نے فوراً ٹوکا اور پوچھا کہ یہ کیوں لائے ہو کیا یہ لوگ گھر سے چائے پی کر نہیں آئے۔ ہمیں اب انہی کے نقش قدم پر چلنا ہو گا تاکہ یہ فضول خرچی کا کلچر ختم ہو۔ ویسے بھی ایک مقروض ملک جہاں عوام کی اکثریت کو دو وقت کے کھانے کے لالے پڑے ہوں، یہ عیاشیاں اسراف ہی نہیں گناہ ہے۔ اگر صوبوں میں ایسے ہی مفت بری اور مال مفت دل بے رحم والی تقریبات پر پابندی لگانے سے سرکاری رقم کا بے محابہ استعمال کم ہو جائے تو بہتر ہے کیونکہ اپنی جیب سے کوئی بھی یہ اخراجات برداشت کر کے مہمانداری نہیں کر سکتا۔ اپنے پلے سے تو کوئی کسی کو چائے کا کپ بھی نہ پلائے یہ ٹین پیک بوتلیں تو بہت دور کی بات ہے۔ 
٭٭٭٭٭
پی ٹی آئی اسمبلیوں سے استعفوں پر تیار ہے۔ فضل الرحمن، کوئی ارادہ نہیں: بیرسٹر گوہر۔
آج کل مولانا فضل الرحمن عجب مخمصے کا شکار ہیں۔ ان کے نئے اتحادی ان کی کسی بات سے اتفاق کرتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ لگتا ہے فی الحال ان کے سیاسی نظریات میں بہت فرق ہے۔ مولانا جو کچھ کہتے ہیں یا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی والے اس کے بالکل اْلٹ بات کرتے ہیں۔پہلے ایسا ہوا تو یہی سمجھا گیا کہ تازہ تازہ اتحاد ہوا ہے۔ ہم آہنگی پیدا ہونے میں وقت لگے گا مگر اب تو کافی علیک سلیک ہو چکی ہے تو پھر یہ علیحدہ علیحدہ سوچ کیوں۔ گزشتہ دنوں مولانا نے بڑے فخریہ انداز میں بتایا تھا کہ پی ٹی آئی والے خیبر پی کے اسمبلی توڑنے پر یا تحلیل کرنے پر تیار ہیں۔ ابھی اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پی ٹی آئی والوں نے فوراً تردیدی بیان جاری کر دیا کہ ایسا کوئی ارادہ یا پروگرام نہیں ہے۔ یوں یہ بات مولانا فضل الرحمن کی خام خیالی ثابت ہوئی۔ اب مولانا کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی۔ وہ دوبارہ الیکشن کرانے کے لیے دل و جان سے تحریک چلانا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف والے بھی گرچہ یہ چاہتے ہیں مگر تیز رفتاری سے نہیں ان کی ساری توجہ پہلے اپنے بانی کی رہائی کی طرف ہے۔ کیونکہ ان کے قید ہونے کی وجہ سے پارٹی میں بہت سے گروپ بے لگام ہو گئے ہیں۔ ہر ایک اپنی اپنی من مانی کرتاپھر رہا ہے۔ یہ پریشانی بھی اپنی جگہ ہے۔ مقدمات زور بھی اپنی جگہ تنگ کر رہا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی، شاید ان حالات کی وجہ سے پی ٹی آئی والے فی الحال خیبر پی کے اسمبلی برخاست کرنے اور باقی سے استعفوں کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر رہی۔ مگر مولانا کو بہت جلدی ہے کیونکہ ان کے پاس دائو پر لگانے کے لیے کچھ نہیں۔ 
٭٭٭٭٭
راولپنڈی میں سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والا محکمہ موسمیات کا سسٹم چوری۔ 
 لگتا ہے ہمارے ڈاکو اور چور بھی جدید ٹیکنالوجی سے آگاہ ہو رہے ہیں اور سیلاب جیسی آفات سے محفوظ رہنے کییہ سسٹم لے گئے ہیں۔یہ حیرت انگیز واردات نالہ لئی کے کنارے کٹاریاں نصب محکمہ موسمیات کے سسٹم کے ساتھ ہوئی جہاں چوروں نے جاپان سے منگوایا گیا سسٹم ہی نہیں ، اس کی بیٹریاں سولر پینل اوردیگر سامان بھی ساتھ لے گئے۔ عجب بات یہ ہے کہ اتنی بڑی واردات کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ حالانکہ اس وقت سیلاب کی اطلاع دینے والے مراکز کی خصوصی دیکھ بھال کی جانی چاہیے کیونکہ یہ سیلاب کا موسم ہے۔ اب جہاں اطلاع دینے والا سسٹم ہی چوری ہو جائے وہاں اطلاع کون د ے گا۔ جب سیلابی پانی سر سے گزرنے لگے گا تب لوگوں کو پتہ چلے گا کہ ’’مڑگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا"۔ تب کس کام کے یہ الارم۔ حکومتی ادارے شہریوں کو پانی سے نکالنے کے لیے آئیں گے۔ تب تک جو نقصان ہو گا اس کا ذمہ دار کون ہو گا۔ پولیس کے مطابق چور تالے توڑ کر سارا سامان لے گئے۔ اب یہ سامان کوئی چند ہزار کا تو نہیں ہو گا لاکھوں کروڑوں کا ہو گا۔ ورنہ پولیس نے بھی کہاں توجہ دینی تھی۔ اب دیکھنا ہے وہ کتنی پھرتی سے اس چور ، چوروں کا پتہ لگاتی ہے جنہوں نے اپنے محفوظ ٹھکانے سیلاب سے بچانے کے لیے یہ سسٹم ہی چوری کر لیا تاکہ ہر وقت سیلاب کی خطرناک صورتحال سے باخبر رہیں اور اپنا اسلحہ و سامان محفوظ مقامات پر منتقل کر سکیں۔ اب پنڈی والے خدا کے آسرے پر اپنا اپنا انتظام کریں کیونکہ محکمہ موسمیات کا ساز و سامان تو چور لے گئے یعنی 
نانی تیری مورنی کو مور لے گئے 
باقی جو بچا تھا کالے چور لے گئے
 امید ہے اس واردات کے بعد محکمہ موسمیات سیلاب سے زیادہ اپنے سیلاب کے اطلاع دینے والے مراکز پر نظر رکھے گا۔ ورنہ جو واردات پنڈی میں ہوئی کہیں اور بھی ہو سکتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭
جوبائیڈن صدارتی ریس سے دستبردار ہو گئے۔
بالآخر لیجئے وہی ہوا جس کا شور تھا ، گرچہ ضعیف العمر جوبائیڈن نے ہانپتے کانپتے بہت کوشش کی کہ وہ الیکشن کی دوڑ سے باہر نہ ہوں مگر امریکہ کو چلانے والے بھی کائیاں ہیں انہوں نے آخری حربہ کے طور پر انہیں کرونا سے متاثر قرار دیدیا۔ یوں طبی وجوہات کی بنا پر جوبائیڈن اب صدارتی امیدوار نہیں رہے۔ اگر رہتے بھی تو کیا ہوتا۔ جو کام ایک گولی نے کیا ہے اس کے بعد تو ٹرمپ کے لیے الیکشن اور بھی آسان ہو گیا ہے۔ 
اب دیکھنا ہے ان کی جگہ کمیلا ہیریسن مضبوط صدارتی امیدوار ثابت ہوتی ہیں یا نہیں۔ کیوں کہ اب انہیں کم وقت میں زیادہ محنت کرنا ہو گی اور ٹرمپ جیسا اکھڑ پن اور وحشیانہ انداز اپنانا ہو گا کیونکہ امریکہ والوں کو یہ انداز پسند ہے۔ جبھی تو وہ اکثر ممالک میں آمریت کو پسند کرتا ہے اور آمروں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اب یہ جو جمہوریت کا راگ امریکی ترجمان ہر وقت گاتے رہتے ہیں یہ صرف اپنے مفادات کے لیے ہوتا ہے۔ خود اپنے ملک میں ایک گولی چلنا برداشت نہ کرنے والا ملک دوسرے ممالک میں تشدد اور افراتفری پھیلانے سے بھی باز نہیں رہتا اور اپنے حامی اسرائیل کو روکتا تک نہیں جس نے بمباری کر کے غزہ ہی نہیں فلسطین کے کئی شہروں کو ملیامیٹ کر دیا ہے۔ وہاں دیکھ لیں امریکہ اسرائیل کی بھرپور سرپرستی کرتا پھرتا ہے۔ اب ٹرمپ کی آمد کے بعد کیا ہوتا ہے معلوم نہیں جب ایک عمررسیدہ شخص کو لاکھوں فلسطینیوں کی بربادی پر ترس نہیں آیا تو ٹرمپ سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن