احسان جتلانے پر وعید(۱)

ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اے ایمان والو! احسان جتلا کر اپنے صدقات ضائع نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنا مال ریاکاری کے لیے خرچ کرتا ہے اور وہ اللہ پراور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا اس کی مثال اس چکنے پتھر کی طرح ہے جس پر کچھ مٹی ہو پھر اس پر زور کی بارش ہوئی جس نے اس پتھر کو بالکل صاف کر دیا وہ اپنی کمائی سے کسی چیز پر قدرت نہیں پائیں گے اور اللہ کا فروں کو ہدایت نہیں دیتا۔( سورۃ البقرۃ : ۲۶۴) 

قرآن مجید میں کافی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے صدقہ کی فضیلت اور اس پر ملنے والے اجر و ثواب کا ذکر فرمایا ہے۔ صدقہ وخیرات کرنے سے دولت گردش میں رہتی ہے معاشرے میں موجود غرباء مساکین ، یتیموں اور بیوائوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم فرمایا ہے اور ساتھ میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کسی کو مال دے کر یا کسی کی مدد کر کے بعد میں اسے شرمندہ نہیں کریں۔ اگر کوئی شخص صدقہ دینے کے بعد اسے طعنہ دے کر اذیت پہنچائے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ اس شخص کی مدد نہ کرے اور اس سے معذرت کر لے اور کسی اور صاحب حیثیت کی طرف بھیج دے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ صدقہ دینے والا صدقہ دینے کے بعد اس کی دل آزاری کرے۔ اور پھر فرمایا کہ صدقہ و خیرات کرنے والا اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کی رضا کی خاطر صدقہ کرے نہ کہ لوگوں کو دکھانے اور سنانے کے لیے۔ 
ریاکاری اور دکھلاواکرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کسی چکنے پتھر پر مٹی جمی ہو اور بارش نے اس کو بالکل صاف کر دیا۔احسان جتانے والے ، ایذا پہنچانے والے اور منافق کو چکنے پتھر سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یعنی جو شخص ریاکاری اور دکھلاوا کرنے اور لوگوں سے اپنی تعریف سننے کے لیے صدقہ و خیرات کرے گا قیامت کے دن اس کے نامہ اعمال میں سے سب کچھ دھل کر صاف ہو جائے گا اس کے نامہ اعمال میں ایک بھی نیکی نہیں بچے گی۔ 
امام ابن ابی حاتم نے حسن روایت نقل کی ہے کہ کچھ لوگ کسی آدمی کو اللہ کی راہ میں بھیجتے ہیں یاکسی آدمی پر خرچ کرتے ہیں ، پھر اس پر احسان جتاتے ہیں اوراس کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں میں نے اللہ کی راہ میں اتنااتنا خرچ کیا، اللہ کے نزدیک اس عمل کا شمار نہیں ہو گا اور جو لوگ کسی کو دے کر یہ کہتے ہیں کہ کیا میں نے تم کو فلاں فلاں چیز نہیں دی تھی وہ اس کو ایذا پہنچاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن