جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں افغان شر پسندوں کی جانب سے پاکستانی قونصل خانے پر پتھرائو کیا گیااور پاکستانی پرچم اتارنے کا افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا ۔افغان باشندوں نے پاکستانی پرچم جلانے کی کوشش بھی کی۔
پاکستان اور جرمنی کے مابین کبھی تعلقات کشیدہ نہیں رہے آج بھی اس کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔ جرمنی میں پاکستانی قونصل خانے پر افغان شر پسندوں کی یلغار اس حوالے سے بھی حیران کن ہے کہ جرمن سکیورٹی فورسز پاکستان کے سفارت خانے کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ کسی بھی ملک میں دوسرے ممالک کے سفارت خانے اس کی ملکیت اور اسی کا علاقہ سمجھے جاتے ہیں مگر اس کی حفاظت کی ذمہ داری اس ملک کی ہوتی ہے جس میں سفارت خانہ واقع ہو۔ پاکستان کی طرف سے جرمن حکومت سے احتجاج کرتے ہوئے مجرموں کی فوری گرفتاری اور تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جرمن حکومت کی طرف سے اس واقعے پر معذرت کی گئی ہے اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا گیا ہے۔ حملہ آوروں کی ویڈیو کے ذریعے پہچان ہو سکتی ہے، جن کے خلاف جرمن حکومت اپنے قوانین کے تحت کاروائی کرے گی اور امید کی جاتی ہے کہ آئندہ ایسا واقعہ رونما نہیں ہوگا۔اس واقعہ سے جرمن حکومت کی بھی عالمی سطح پر سبکی ہوئی ہے۔پاکستان ہی نہیں دیگر ممالک کے سفارت خانوں کی فول پروف سیکیورٹی کی اب یقیناً ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔پڑوسی اور مسلم ممالک ہونے کے علاوہ دونوں ممالک کا کافی حدتک کلچر اور زبان میں قدر مشترک ہے۔ ہزاروں خاندانوں کی ایک دوسرے کے ممالک میں عزیز داریاں اور رشتہ داریاں بھی ہیں۔ ان عوامل کے پیش نظر پاک افغان تعلقات تو مثالی ہونے چاہئیں۔شاید ان کے ہاں روایتی ’’شریکے ‘‘کی سوچ پائی جاتی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد سے اب تک سوائے ملا عمر کی طالبان حکومت کے، پاک افغانستان تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ظاہر شاہ تو قیام پاکستان کی مخالفت پر کمر بستہ رہے ان کے بعد داؤد اور دیگر جو بھی آیا ہر کسی نے حسب توفیق و بساط پاکستان کی مخالفت اور اسے نقصان پہنچانے کی حتی الوسع کوشش کی۔امریکہ کے ہاتھوں ملا عمر کی حکومت کے خاتمے کے بعد حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی اقتدار میں لائے گئے۔ یہ دونوں اس کے باوجود بھارت کی پراکسی بنے رہے کہ ان کو پاکستان میں کئی سال تک پناہ دی گئی تھی۔ان دونوں احسان فراموشوں کے ادوار میں پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہونا شروع ہوئی۔یہ دونوں امریکہ کے پٹھو اور بھارت کے گماشتے بنے رہے۔امریکہ افغانستان سے واپس گیا تو نائٹ ویڑن آلات سمیت مہلک اسلحہ یہیں چھوڑ گیا۔
طالبان کی ہر سطح پر پاکستان نے حمایت کی۔ان کے اقتدار میں آنے کی راہ بھی پاکستان کی طرف سے ہموار کی گئی۔ امید کی جا رہی تھی کہ پاکستان افغان تعلقات طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بہتر ہو جائیں گے مگر افسوس، آج کے طالبان حامد کرزئی اور اشرف غنی رجیم کا تسلسل ثابت ہوئے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین بری طرح استعمال ہو رہی ہے۔ضرب عضب اپریشن کے بعد پاکستان سے فرار ہونے والے دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دی گئی بھارت کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئیوہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہے۔موجودہ طالبان حکومت کے دوران افغانستان میں ٹی ٹی پی کے گروپ اور گروہ مزید محفوظ اور مضبوط ہو چکے ہیں۔ وہیں بیٹھ کر وہ پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل بشام میں چینی انجینئرز کی بس پر حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں کی گئی جس کے پاکستان نے ناقابل تردید ثبوت دنیا کے سامنے رکھے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے ڈانڈے افغانستان ہی سے جا ملتے ہیں۔ پاکستان میں مداخلت کے لیے بھارت افغانستان کی سرزمین استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ ٹی ٹی پی کو بھارت کی فنڈنگ ہوتی ہے جبکہ طالبان حکومت اسے امریکہ کی طرف سے چھوڑا گیا مہلک اسلحہ فراہم کرتی ہے۔پاکستان نے متعدد بار طالبان کو باور کرایا مگر طالبان حکومت کی طرف سے کبھی مثبت جواب نہیں دیا گیا جس پر لامحالہ پاکستان نے ایک مرتبہ افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا۔ اب افغانوں کی طرف سے دوسرے ممالک میں بھی پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچایا جانے لگا ہے۔پاکستان کے لیے یہ صورتحال ناقابل برداشت ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں سب سے بڑا دہشت گرد گروپ کالعدم تحریک طالبان ہے جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔اقوام متحدہ صرف اطلاع دینے پر اکتفا نہ کرے، ان دہشت گردوں کے خلاف عملی اقدامات بھی اٹھائے۔بہت ہو گیا،اب پاکستان کو افغان حکومت کی سازشوں دہشت گردوں کی پشت پناہی پر مسکت جواب دینے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں آج بھی لاکھوں افغان پناہ گزین موجود ہیں۔ان میں سے کئی دہشت گردی میں ملوث اور کئی سہولت کاری کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان سب کو بلا امتیاز کوئی گڈ ہے یا بیڈ ان کیوطن مالوف روانہ کردیا جائے۔ افغانستان پر عالمی پابندیوں کے حوالے سے بھی یہ کیس کافی مضبوط ہے۔
وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کا کہناہے کہ جرمنی میں پاکستانی سفارتخانہ پر حملہ میں اگر کوئی پاکستانی ملوث ہوا تو اس کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک کیا جائے گا۔جرمنی میں حملہ عمران کے اکسانے پر ہوا۔اس معاملے میں اگر کوئی پاکستانی ملوث نکلتا ہے تو کسی رعایت کا مستحق نہیں ہے۔ مگر بلیم گیم سے احتراز کی ضرورت ہے۔بلا تحقیق ایسے بیانات اور الزامات سے پاکستان کا عالمی سطح پر کیس کمزور ہو سکتا ہے۔
فرینکفرٹ میں افغان شر پسندوں کا پاکستانی قونصل خانے پر حملہ
Jul 23, 2024