کام اور بکواس میں فرق ہوتا ہے!

ڈاکٹر فرزانہ نذیر کا تعلق تحریک پاکستان کے کارکنان کی فیملی سے ہے جنھوں نے پاکستان کی تحریک میںحصہ لیا ۔ ڈاکٹر فرزانہ نذیرمسلم لیگ ن کی رہنما ہیں۔ وہ گنگاہسپتا ل کی سینئر ڈاکٹرکنسلٹینٹ اور جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ ہم جب بھی ملتے ہیں تو ملکی حالات پر سب سے زیادہ بات کرتے ہیں۔ ایک طرف ہم پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت، مہنگائی، کرپشن اور اخلاقیات پر سوچتے ہیں اور اُس کے ممکنہ حل پر غور کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہم دونوں کو بیک وقت اس بات کا شدید صدمہ ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان بنانے کے لیے اپنی زمین جائیدادیں، گھر باربھی چھوڑا۔جان و مال کی قربانی دی اور اسکے بعد اپنے آبائو اجداد کے نقشِ قدم پر چلتے ہو ئے ہم نے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالا۔ لوگوں میں شعور اور آگہی پیدا کی۔ وطنیت کا احساس دلایا۔ پاکستان سے محبت کا سبق دیااور اپنے وطن کے لیے دن رات کام کیا لیکن ہم دونوں کو ہی شدت سے اس بات کا شکوہ ہے کہ یہ عظیم ملک جہاں لاکھوں لوگ آج کھرب پتی اور ارب پتی ہیں وہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے بجائے صرف لوٹ کھسوٹ میں مشغول ہیں۔ ہمیں گلِہ ہے کہ ہمارے آبائو اجداد نے پاکستان بنایا لیکن اُن کی اولادوں کو نہ وہ عزت و توقیر دی گئی اور نہ انھیں حکومت میں کو ئی کو ٹہ دیا گیا۔ جس ملک پر آج لوگ عیا شیاں کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے بڑوں کے خون پسینے اور قربانیوں سے بنا ہے لیکن ہمیں پاکستان میں اس کا کیا صلِہ ملا ہے۔ کیا حکومت بتا ئے گی کہ انھوں نے پاکستان بنانے والوں کی اولادوں سے کیا سلوک کیا ہے؟؟ ڈاکٹر فرزانہ نذیر کشمیر کے حوالے سے بھی بہت حساس ہیں۔ وہ کشمیر کے حوالے سے ریلیاں نکالتی رہتی ہیں اور پاکستانی عوام کو کشمیر کے لیے اٹھنے اور کچھ کرنے کا پیغام دیتی رہتی ہیں۔ میں اپنے قلم سے اور ڈاکٹر فرزانہ نذیر اپنی کشمیر ریلیوں کے ذریعے کشمیر کاز کو زندہ رکھتی ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر فرزانہ نذیر نے ایک کامیاب ریلی کا انعقاد کیاجس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔کشمیر کی آزادی کے لیے انہوں نے بہت سی تجاویز دیں اور شرکاء کو گرمایا کہ وہ کشمیر کی آزادی میں جوش و خروش سے حصہ لیں۔ ڈاکٹر فرزانہ نذیرکی تقریر سُن کر مولانا فضل الرحمان یاد آگئے جو طویل عرصہ کشمیر کمیٹی کے چیئر مین رہ کر پروٹوکول، مراعات، عنایات، تنخواہیں، بونس، الائونسز،گا ڑیاں، سرکاری رہائش گا ہ، فری پٹرول، پانی بجلی گیس فون اور لاکھوں کی تنخواہ کے علاوہ مختلف ممالک مزے سے جاتے رہے لیکن کشمیر کے لیے ذرہ برابر کچھ نہیں کیا۔ یہ ہوتا ہے کام کرنے اور باتیں ملانے میں۔ اسلام جہاد کا حکم دیتا ہے تو افغانستان میں لوگوں کے غریب اور جوان بیٹے خوب جھونکے گئے کیونکہ اسکے عوض ڈا لر ملتے تھے لیکن غزہ میں لاکھوں لوگ مار دیئے گئے۔ فلسطین لہو لہان کر دیا گیا بلکہ فلسطین کو کھنڈر بنا دیا گیا مگر نہ تو مولانا فضل الرحمان نے کو ئی مہم چلائی یا جہاد کے لیے نکلے اور نہ ہی مولانا طارق جمیل ، مولانا طا ہر اشرفی، مولانا طا ہر القا دری، مولانا تقی عثمانی، مولانا عبد الخبیر آزاد نے فلسطین میں ہونے والی جارحیت ، بربریت اور دہشت گردی کے خلاف جہاد کیا۔ افسوس کہ مائوں نے غیور اور بہادر بیٹے ہی پیدا کرنے بند کر دیئے ہیں۔ کہتے ہیں جیسی مائیں ہوتی ہیں ویسے اُن کے بیٹے ہو تے ہیں اور جیسے باپ ہوتے ہیں ، ویسی اُن کی بیٹیاں ہو تی ہیں۔ آجکل کے نوجوانوں کو تو عشق و معشوقی اور معاشقے لڑانے، سیر سپاٹے کرنے ، فیشن اور ہوٹلنگ کرنے کا شوق ہے یا پھر عورتوں کی طرح بنائو سنگھار ، ڈرائیونگ اور سب سے بڑھکر موبائل کی عیاشیوں کے چسکے پڑے ہیں۔ پہلے مائیں اولاد کو غیرت حمیت، ذمہ داری، وفا داری اور حب الوطنی سکھاتی تھیں لیکن افسوس کہ آجکل کی اکثر مائیں ایسی نہیں ہیں۔ زیادہ تر نوجوان نسل یہ سمجھتی ہے کہ زندگی کھیل تماشہ ہے اور وہ زندگی بھر جوان، تر و تازہ اور طاقتور رہیں گے۔ یہ لوگ اچھا لباس، اچھا کھانا، اچھے جوتے، اچھی گاڑی اور قیمتی موبائل لیپ ٹا پ کو ہی زندگی کا محور و مرکز سمجھتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا ساری زندگی یہ سلسلے چلتے ہیں؟ یہ ختم ہونے میں صرف ایک جھٹکا لگتا ہے۔ لقوے،فالج، ہارٹ اٹیک یا ایکسیڈینٹ میں صرف ایک لمحہ لگتا ہے اور زندگی کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ نئی نسل میں حب الوطنی اور ذمہ داری کا فقدان ہے۔ رات دن موبائل پر بیوقوفوں کی طرح وقت ، پیسے اور انرجی ضا ئع کرتے رہتے ہیں۔ آپ انڈیا کے نوجوان دیکھیں جنکی زندگی علم، ہنُر اور ریسرچ میں گزرتی ہے۔ آج انڈین نوجوان دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں ٹاپ پوزیشن پر بیٹھے ہیں۔ چینی جاپانی کورین اور روسی نوجوانوں کو دیکھیں جنھوں نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یورپین نوجوان علم و ادب اور تہذیب و شا ئستگی میں سب سے آگے ہیں ۔یہ سب لوگ کتا بیں پڑھتے اور علم حا صل کرتے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کی طرح نہیں کہ ابھی لڑکپن میں ہی معا شقے شروع کر دیتے ہیں اور ایج کمپلیکس جو پہلے عورتوں میں ہوتی تھی، اب لڑکوں میں اُس سے زیادہ ہے اور اپنے آپکو کم عمر ہی ظا ہر کرتے ہیں۔ جس سے اُنکے کردار کی نا پختگی اور تربیت کی کمی کا بھی اندازہ ہو تا ہے۔ آجکل کے نوجوان سلمان خان کی طرح صرف بڑھکیں لگاتے ہیں ۔ اگر اُنکا کردار مظبوط ، اعلیٰ، صحت مند اور مثبت ہو تو معاشرے میں بہترین اقدار نظر آئیں۔ معاشرہ ترقی کرے، پورا ملک خو شحال اور اخلاقی دولت سے مالا مال نظر آئے لیکن جس ملک میں ہر نوجوان جھوٹ بولتا ہو، بے ایمانی، کرپشن، رشوت، سفارش اور منافقت، کام چوری یا بد دیانتی سے چلتا ہو۔ جس ملک کی نسل خدا خوفی اور سزا و جزا سے عاری ہو ۔ پھر وہاں یہی ہوتا ہے جو پاکستان میں آج ہو رہا ہے کہ دوسروں کا حق کھا لیا جاتا ہے۔ دن دیہاڑے چوریاں ڈ کیتیاں ہو تی ہیں۔ اغواء ، مارپیٹ اور ناحق قتل و غارت ہو تی ہے۔ لڑکیاں گھروں سے بھاگتی ہیں۔ لڑکے شادی سے پہلے بُرے کام کرتے ہیں۔ زنا کاری ہو تی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کمسن بچیوں کا ریپ کیا جاتا ہے او ر معصوم کلیوں کو مسَلتے ہو ئے یہ بد بخت نہیں سوچتے کہ انھی جیسا وحشی درندہ اگر اُنکی بہن یا بیٹی کے ساتھ یہ درندگی کر جائے تو یہ اُس کا کیا بگاڑ لیں گے اور اگر بگاڑ بھی لیں گے تو کیا اُس معصوم لڑکی کا نارمل زندگی کی طرف واپس لاسکیں گے؟؟ افسوس اور دُکھ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی بھی اسلامی اصولوں پر نہیں چل رہا۔ کسی کو روزِ قیامت کا خوف نہیں۔ کو ئی مکافاتِ عمل سے نہیں ڈرتا کہ یہ ہر شخص کو پیش آنا ہوتا ہے۔ ہاں ویسے مذہب پر بھاشن سن لیں، رٹی رٹائی دینی باتیں کرا لیں۔ قرآن حدیث اور نیکی کی خالی خولی باتیں کرلیں، سوشل میڈیا ان سے بھرا ہوا ہے، لیکن عملی طور پر سب زیرو ہیں۔ جو عمل کرتے ہیں یا خدا سے ڈرتے ہیں۔ انکے کردار اور عمل سے نیکیاں ظاہر ہو تی ہیں ۔ آج پاکستان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں کام کم کیا جاتا ہے اور بکواس زیادہ ہوتی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن