قرضوں اور ٹیکسو ں کی بھرمار  ’’عوام کہاں جائیں‘‘

عام خیال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو روس کی طرف جھکائوپر وزیرِ اعظم کے منصب سے ہٹایا گیا اورامریکی ایماپرعدمِ اعتمادکے زریعے شہباز شریف کو اقتدارمیں لانے کی راہ ہموار کی گئی مگر حالات سے ایسے خیال یاسوچ کی نفی ہو رہی ہے کیونکہ بانی پی ٹی آئی کی حمایت میں امریکہ پیش پیش ہے تو شہباز شریف کا جھکائو بھی واضح طورپر روس کی طرف ہے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں صدرپوٹن سے ہونے والی خوشگوارملاقات کے دوران باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق اور پاکستان کے دورے کی دعوت دینے سے واضح ہے کہ چین کے دوست ممالک سے پاکستان تعاون بڑھانے کی روش پر گامزن ہے دوطرفہ معاہدوں کے لیے بیلاروس کے صدر کا اکتوبر میں متوقع دورہ بھی ایسی پیش رفت ہے جس سے امریکی مداخلت کے خیال کی تائید نہیں ہوتی بلکہ پی ٹی آئی کارکنوں کے بنائے تاثرکوبے بنیاد کہا جا سکتاہے عین ممکن ہے وہ بھی شش وپنج کاشکارہوںمگر ایک بات ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کے حکمرانوں کی طرح پاکستانی حکمران بھی حقائق کی بجائے تصورات اور زات سے نہیں نکل رہے اقتدار کے  ساتھ ہی پالیسیاں بدل جاتی ہیں اگر پالیسیوں میں تسلسل رہے تو شایدکچھ بہتری آجائے اور کسی کو بے بنیاد بیانیہ بنانے کا موقع نہ ملے مزیدیہ کہ ترقی یافتہ ممالک علم و تحقیق پر بھاری رقوم صرف کرتے ہیں نیز عوامی مزاج کو ملکی مفادسے ہم آہنگ رکھنے کے لیے باقاعدہ اِدارے ہوتے ہیں جن کامطمع نظر حکومتوں کی تشکیل یا زاتی مفاد نہیںہوتا بلکہ وہ مملکت کے وسیع تر مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے رائے عامہ کی زہن سازی کرتے ہیں بدقسمتی سے پاکستان میں اِس حوالے سے کام نہ ہونے کے برابر ہے علم و تحقیق کے اخراجات میں بھی کمی کی جارہی ہے یہاں اکثر قلمکاربھی حقیقت بیانی کی بجائے عوامی مزاج دیکھ کرلکھتے ہیں ایساعلمی اور تحقیقی حوالے سے ترقیافتہ ممالک میں نہیں ہوتا اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں اقتدارکی تبدیلی کا مطلب پالیسیوں میں تبدیلی نہ لیا جائے بلکہ جو بھی اقتدار میں آئے ملکی مفاد مقدم رکھے اورکوشش کرے کہ پالیسیوں کاتسلسل قائم رہے علاوہ ازیں علم وتحقیق کے فروغ پر کام کرنے کے ساتھ رائے عامہ کی زہن سازی پر بھی توجہ دی جائے۔ہمارے حکمران معاہدے کرنے میں جتنی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اْس کا نصف بھی منصوبوں کی تکمیل میں نہیں کیاجاتا اکثر منصوبے معینہ مدت میں مکمل نہیں ہوپاتے یہ تاخیر وقت کے ضیائع کے ساتھ لاگت بڑھنے کا موجب بنتی ہے مثال کے طور ایران سے قدرتی گیس درآمد کرنے کا معاہدہ کیا گیا ایران کئی برس قبل اپنے حصے کا کام مکمل کر چکا لیکن امریکی پابندیوں سے خوفزدہ پاکستان ہنوز اپنے حصے کا کام مکمل نہیں کر سکا اِس لیے توانائی کا بحران بددستورموجودہے اب تو مذکورہ منصوبے کی لاگت میں بھی اربوں کا اضافہ ہو گیا ہے اگر حکومتیں معاہدے کرنے اور منصوبوں کے آغاز سے قبل تھوڑا غوروفکر کر لیا کریں تو ایسی نوبت نہ آئے کیا کوئی جھٹلا سکتا ہے کہ پاک ایران روابط میں قدرتی گیس درآمد کرنے کے منصوبے کی بروقت تکمیل نہ ہونے پرسفارتی سطح پر خفگی موجودہے؟سوال یہ ہے کہ جب امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے بھارت تجارت بڑھانے کے ساتھ بھاری سرمایہ کاری میں مصروف ہے تو پاکستان کو بھی اپنے مفاد کے تحفظ کا حق حاصل ہے مگر اکثر پاکستانی حکومتیں اپنے سیاسی مفادات کے لیے عالمی طاقتوں کے سامنے موقف پیش کرنے میں تساہل سے کام لیتیں اور محض ملنے والی ہدایات پر عمل کرنے پر اکتفاکرتی ہیں جس سے نہ صرف پالیسیوں کے تسلسل میں رخنہ اور غربت میں اضافہ ہورہاہے بلکہ عوام میں بھی انتشارجنم لے رہا ہے اگر رہنمائی کے لیے اِدارے موجودہوں تو نہ صرف حکومتوں کا محاسبہ ہونا آسان ہو جائے گابلکہ عوامی مفاد کی نگہبانی کا مقصدبھی حاصل کیاجا سکتا ہے ۔

دنیاکے قرض کا حجم 91کاکھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا جوکْل عالمی معیشت کے مساوی ہے مگرحقیقت یہ ہے کہ اِس کا عشر عشیر بھی معیشت کی بحالی اورعوامی بھلائی کے منصوبوں پر خرچ ہوسکا بلکہ رقوم کا بڑا حصہ یا تو بدعنوانی کی نذر ہو گیا یا پھر حکومتیں مستحکم بنانے کی مد میں استعمال کرلیا گیالیکن قرض کے بڑھتے رجحان سے معاشی بہتری کی بجائے کئی ممالک کی معیشت کھوکھلی ہوگئی ہے اب جبکہ یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے اور آثار وقرائن سے بھی واضح ہے کہ آئندہ چندسالوں میں عالمی قرضوں کا حجم 120کھرب ڈالر سے تجاوز کرسکتاہے جسے کنٹرول کرناکمزور حکومتوں کے لیے دردِ سراور بڑاچیلنج ہو سکتا ہے بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی ایسے اولیں ممالک میں ہوتا ہے پہلے امریکی اور اب چینی بلاک کا حصہ بننے کا نتیجہ ہے کہ قرض کْل معیشت کے مساوی ہوگیاہے اب تو نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اقساط اور سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینامجبوری ہے لیکن حکومتی شاہ خرچیاں دیکھیں تو کوئی کمی نہیں آرہی جس کی وجہ سے عوام کے معیارِ زندگی کولاحق خطرات میں وقت کے ساتھ اضافہ دیکھاجانے لگاہے کیونکہ ٹیکس بڑھاکر وسائل اکٹھے کرنا آسان سمجھ لیا گیاہے جس سے سخت عوامی ردِ عمل کا امکان بڑھتاجارہا ہے لیکن اگر حکومتی صفوں کی طرف دیکھیں تو کسی قسم کی پریشانی کے آثار نہیں بلکہ ایک اطمنان کی کیفیت ہے ظاہر ہے ایسا حقائق سے عدم آگاہی کی بدولت ہی ممکن ہے حکومت کی توجہ معیشت اور عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کی بجائے حزبِ مخالف کو قابوکرنے پر ہے ملکی مفاد ،عوامی حقوق کے تحفظ اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کی بجائے جب اپوزیشن کوناکام بنانے پرہی سارا زورلگایاجایا گا تو مسائل میں کمی نہیں آسکتی اگر حکومتیں انتقامی کاروائیوں کی بجائے آئینی فرائض تک محدود رہیں اور اپوزیشن مثبت کردار کرے نیز پالیسیوں کا تسلسل قائم رہے تومسائل حل ہو سکتے ہیںپاکستان کئی دہائیوں سے عدمِ استحکام کا شکار ہے مگراپوزیشن اور حکومت رویہ بدلنے پر آمادہ نہیں ہر نئی حکومت نہ صرف سابقہ حکمرانوں کے جاری منصوبوں پر کام روک دیتی ہے بلکہ خارجی تعلقات کی نوعیت بھی بدل دیتی ہے جس سے پاکستان کا عالمی تشخص ایک جذباتی ریاست کا سا ہو کر رہ گیا ہے کمزور حکومتیں اپنے بچائو کے لیے عالمی طاقتوں کی آلہ کاربننے پر مجبورہوتی ہیں  ایسا طرزِ عمل کسی بھی آزاد وخود مختاراور فلاحی ریاست کے شایانِ شان نہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ قرضوں سے ملک چلانے کی سوچ پر نظر ثانی کی جائے اور اقتدارکی تبدیلی سے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹیں نہ آنے دی جائیں علاوہ ازیں خودانحصاری کی پالیسی اپنائی جائے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب تصورات سے نکل کر حقائق کا ادراک کیا جائے اور ملکی و عوامی مفاد کو سیاست سے مقدم رکھاجائے ۔

ای پیپر دی نیشن