مفتی تقی عثمانی کی وارننگ

Jul 23, 2024

محبوب احسن ملک …… دوستی

20 جولائی 2024ء کی دوپہر کراچی میں تاجر کمیونٹی کی غیر معمولی تقریب میں عالمی شہرت کے حامل عالم دین مفتی تقی عثمانی کے خطاب کی دھوم ابھی تک ہے۔ انہوں نے حکمرانوں اور اشرافیہ کو آئینہ دکھاتے ہوئے وارننگ دی کہ عام آدمی کی زندگی مسائل اور مصبتوں سے بھر چکی ہے ، پانی صرف بلند ہی نہیں سر سے اونچا ہو چکا ؟ صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا، اہل اقتدار نے اب بھی مدہوشی نہ چھوڑی تو پھر عوامی غیض وغضب سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ احسان دانش یاد آگئے

آجاؤ گے اک روز جو حالات کی زد میں
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے 
مفتی صاحب فرماتے ہیں بجٹ سازی سے تنخواہوں کے معاملات تک اور فیصلہ سازی سے اس کے نفاذ تک سارے معاملات آئی ایم ایف طے کررہا ہے ۔کیا ایسی صورت حال میں ہم خود کو ’’آزاد ملک کا آزاد شہری‘‘ کہہ سکتے ہیں غلامی در غلامی  کی پالیسی نے پورے نظام اور 25 کروڑ عوام کو جکڑا ہوا ہے۔  غریب کو ایسی جمہوریت سے کیا لینا دینا ہے جس سسٹم میں وہ بجلی کا بل ادا نہ کرسکے؟ بچوں کا علاج اور مہنگی تعلیم اس کی دسترس سے باہر ہو ۔انصاف کے دروازوں پر التواء کا بڑا تالہ لگا ہو۔ وہ انصاف اور داد رسی کے لیے جائے تو جائے کہاں؟
جناب مفتی تقی عثمانی کی تنبیہ وقت کی آواز ہے!! تاریخ کی سب سے بڑی ٹیکس پالیسی نے عام شہری‘ کاروباری طبقے اور صنعتکاروں کو ایسی بند گلی میں پہنچا دیا ہے جہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ عدالت عظمی میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 59 ہزار  سے متجاوزہے ۔ گزشتہ دو برس سے چھوٹی بڑی عدالتیں سیاست دانوں کے سیاسی مقدمات ہی سن رہی ہیں دوسری طرف 3 ماہ کے دوران آئی پیز کو 450 ارب کی ادائیگی ہو چکی ‘ ان میں سرکاری بجلی گھر بھی شامل  ہیں حکومت‘ پارلیمنٹ ‘ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاوس سمیت کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں سے ریلیف کی ٹھنڈی چھاؤں آسکے …یہ درست ہے کہ نظام وہ ہی قابل قبول ہوتا ہے جو لوگوں عزت کی روٹی اور زندگی کی بنیادی ضرورتیں بلا روک ٹوک دے۔ پاکستانی نظام اس حوالے سے ’’عوام دشمن ‘‘بن چکا۔ بجلی کے بلوں نے بے روزگاری اور مہنگائی کو پیچھے چھوڑ دیا 22  ہزار تنخواہ لینے والے کا  26 ہزار بل جمہوری نظام پر ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے پاس ہے نہ بڑی پارٹیوں کے سربراہان اس کا جواب دے سکتے ہیں
زندگی ہے یاکوئی طوفان ہے 
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
قوم جب سیسہ پلائی دیوار بن جائے تو اس کے ارادوں اور قومی اتحاد کی عمارت میں نقب لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن رہتا ہے۔ عام انتخابات سے پہلے اور بعد میں سیاسی بے چینی کا جو بیج بویا گیا اور جس جس کے بویا آج کے حالات اسی کرم نوازی کا مظہر ہیں، رہی سہی کسر مہنگائی اور بے روزگاری نے پوری کر دی ۔عوام کو بجلی‘ گیس اور پٹرولیم کے نرخ میں تبدیلی کے نام پر جس جس طرح اور جس جس ذریعے سے تنگ کیا جارہا ہے کیاایسے حالات میں قومی وحدت اور قومی اتحاد کی بات ہوسکتی ہے؟ خلیل جبران نے کہا تھا  ’’جس شخص کی جیب اور پیٹ خالی ہو آپ نے اس سے قائدے‘ انصاف ،قانون اور میرٹ کی بات نہیں کرنی ‘‘ 25 کروڑ آبادی میں نصف ساڑھے بارہ کروڑ افراد بجلی‘ گیس اور پیٹرول سے متاثرہ ہیں یہ پہلا موقع ہے کہ لوگ گھر کی اشیاء فروخت کرکے بجلی کے بھاری بل ادا کررہے ہیں کیا ایسے حالات کو ہم گڈ گورننس سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔سترہ جولائی کو وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے ایف بی آر اصلاحاتی اجلاس میں خطاب کے دوران انکشاف کیا کہ 4 ماہ کے دوران ٹیکس ریفنڈ میں 800 ارب روپے کا فراڈ پکڑا گیا۔ 16 جولائی کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے اجلاس میں ڈی جی سوئی نادرن گیس نے اعتراف کیا کہ ہر سال 40 ارب روپے کی گیس چوری ہورہی ہے. 7 دن سے سابق وزیر تجارت ڈاکٹر گوہر اعجاز اور وفاقی وزیر پانی وبجلی اویس لغاری آمنے سامنے ہیں. اعجاز گوہر کہتے ہیں بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں (آئی پی پیز) کے اخراجات قومی خزانے پر بوجھ ہیں انہوں نے انکشاف کیا کہ سرکاری بجلی گھروں کو ایک ہزار ارب روپے دینے کا کوئی جواز ہے نہ دلیل جن بجلی گھروں کو بند ہونا چاہیے یا جن کے معاہدوں کو ختم کرنا چاہیے حکومت خود انہیں پال کر مہنگی بجلی فروخت کرنے کا سامان پیدا کر رہی ہے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وفاقی حکومت بجلی گھروں سے ساڑھے سات روپے فی یونٹ خریدتی ہے۔ یہاں ہم نے صرف تین حوالے دئیے ہیں جن میں 800،40 اور 1000 ارب کی گونج ہے
حکومت اپنی ذمہ داریوں سے اغماص برتے گی تو عوامی بے چینی بڑھے گی ،غیر یقینی حالات کا سورج سوا نیزے پر آچکا ہے آپ معاشی درجہ بندی کیلئے سرگرم عالمی ریٹنگ ایجنسی ’’فچ ‘‘کی ہوش ربا رپورٹ دیکھیں اور پڑھیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا حالات کس کروٹ جارہے ہیں؟ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیاسی افراتفری جاری رہے گی جس کے نتیجے میں شہبازحکومت کے مستقبل کا خطرہ 18 ماہ بعد بڑھ جائے گا۔ مہنگائی اور بیروزگاری حکمرانوں کیلئے نئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔ابھی وقت ہیں عوام دوستی کے وعدوں کے ساتھ ایوان اقتدار میں داخل  ہونے والے ہوش کے ناخن لیں اور اپنے وعدے پورا کریں ۔ہم پوچھناچاہتے ہیں کہاں ہیں مسلم لیگ ن‘ پیپلز پارٹی‘ اور ایم کیو ایم کے انتخابی منشور جن میں بتایا گیا تھا کہ قوم کی خوشحالی ان کیلئے فرض اولین ہے ۔ہم عرض گزار ہیں جناب صدر آصف علی زرداری‘ جناب میاں  محمد شہبازشریف اور جناب ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے  اگر انہیں فرصت ملے تو اپنی  جماعتوں کا انتخابی منشور ضرور پڑھ لیں!!

مزیدخبریں