یوں تو پاکستان سانحات کی سرزمین بن کر رہ گیا ہے اور آئے روز کہیں کوئی نہ کوئی سانحہ عوام اور پاکستان کے مقدر اورنصیبوں کوجھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ابھی ہماری سرحدوں کے اطراف ہر ملک میں عدم استحکام چل رہا کہیں سیاسی ،کہیں پمعاشی، کہیں لسانی،کہیں پر نظریاتی ،کسی بھی رنگ ڈھنگ میں انتشار اورعدم استحکام ہے۔اس سارے ماحول میں پاکستانیوں کو بچ کر نکلنا ہوگا کیونکہ طالبان جب سے اکیلے حکومت بنا کر بیٹھے ہیں اور ان کو دنیا میں پذیرائی ابھی تک نہیں ملی۔ بہت کم ملک ایسے ہیں جنہوں نے طالبان کو تسلیم کیا ہو اور اپنے سفیر وہاں بھیجے ہوں اور سفارتی طریقے سے قبول کیا ہو۔ امریکہ کے جانے کے بعد طالبان چونکہ ہمارے دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اس لیے لامحالہ پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات نے بگڑنا ہی تھا مگر پاکستان اب یہ افورڈ نہیں کر سکتا۔
پہلے جیسا پیار محبتیں، مجاہدین اور اسلحہ بھیجنااور پاکستان کی ساری اکانومی اور آج کے جو قرضے پاکستان پر ایشین بینک،اسلامی بینک اور ورلڈ بینک کے چڑھے ہوئے ہیں ان قرضوں کی اصل وجہ افغانستان کی صورتحال تھی۔ اگر اتنا پیسہ ہم کشمیر کے کاز پر لگاتے جتنا ہم نے افغانستان پر لگایا اب تک ہم نے پانچ چھ کشمیر آزاد کروا لینے تھے۔ اب طالبان نے اپنی موجودگی پاکستان میں شو کرنے کے لیے اور دھمکیاں دینے کے لیے ، کبھی وہ ہمیں معیشت کا طعنہ دیتے ہیں اور کبھی وہ دھمکیاں دیتے ہیں۔ ان کا ایک محسن کش کردار سامنے آیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نوائے وقت کے مرحوم مجید نظامی صاحب اور موجودہ ہماری نوائے وقت کی چیف ایڈیٹر ہیں وہ بھی اس کاز کو سپورٹ کرتی ہیں۔ باقاعدہ افغانستان کے متعلقہ ایک قطعہ اخبار میں شائع ہوتا ہے۔لیکن ابھی کچھ عرصے سے افغان طالبان کی پالیسی بدلنے سے اور انڈیا کے ساتھ کھڑے ہونے سے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانیوں کے دلوں میں ایک بہت بڑی گرہ پڑ گئی ہے۔ جس کی موجودگی میں اب وہ پیار محبت اور ایک دوسرے کے لیے احترام تو بڑی دور کی بات اب ایک دوسرے کو برداشت بھی بڑی مشکل سے کر رہے ہیں۔ یہ دونوں طرف سے ہے اور خاص طور پر انڈیا کی افغانستان میں موجودگی اور اپنی انویسٹمنٹ اور مستقبل کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انڈین خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے جو وہاں پر کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔ ایک پورا محاذ کھولا ہوا ہے پاکستان میں۔ ایک طرف وہ افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے اور دوسری طرف ایران کے بندرعباس پر پورا قبضہ کیا ہوا ہے۔اس کی پوری موجودگی ایران اور افغانستان میں ہے۔دوسری طرف ایک چائنہ ہے جس کے بارڈر کو ہم کسی لحاظ سے مضبوط اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ چائنہ خود ایک بڑی طاقت ہے اس کو کوئی اتنی آسانی سے مجبور نہیں کر سکتا۔ ورنہ پاکستان کے چاروں طرف سے انڈین ،ایران اور افغانستان کہیں سے بھی کسی وقت بھی دراندازی بلکہ اکثر دراندازی ہوتی رہتی ہے۔
آج جو بنوں میں حالات ہیں، آج جو سوات میں حالات ہوئے ہیں آج جو جنوبی وزیرستان میں حالات ہوئے ہیں ان سب کے پیچھے ایک عام فہم انسان بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے پیچھے انڈین انٹیلی جنس ایجنسیاں اور افغانستان کے طالبان اپنا میجر کردار ادا کر رہے ہیں اور تمام کریمنلز کو وہ پاکستان میں دھکیل رہے ہیں جب کہ حکومت پاکستان نے اس سے پہلے طالبان کو واپس بھجوانے کا اعلان کرکے بہت بڑا پنگا لے چکی ہے ان کے ساتھ۔ لہٰذا ایسی چیزوں کی موجودگی میں جو ہوا پاکستان کے اندر ،بنوں کے اندر ،سیدھی عوام پر گولیاں چلائی گئی ہیں۔اب ان کی تفتیش ہونی چاہیے ،اس پر کمیشن بیٹھنا چاہیے ،ایک عدالتی کمیشن بیٹھے۔پاکستان کے اداروں کو اس میں شامل کرکے کمیشن بنایا جائے تاکہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں جو سانحہ بنوں ہوا ہے اس کے مجرمان کو سزا دے سکیں۔میں نہیں سمجھتا کہ حکومت کی طرف سے سیدھی گولیاں عوام پر چلا ئی جا سکتی ہیں یہ ضرور کوئی شرارت ہوئی کہ عوام کی اس ریلی میں کچھ لوگوں نے شامل ہو کر اس طرح کی شرارت کی ہو گی۔اس کا جو بھی مجرم ہو چاہیے کوئی بھی ہو اس کو سزا ملنی چاہیے۔یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس واقعے کو ایشو بنا کر خیبرپختونخواہ کی حکومت کو ختم کرنے کا کوئی بہانہ تلاش کریں۔ کیونکہ آج کل کے سوشل میڈیا کے ماحول میں پاکستان کی عوام ان چیزوں کو بڑی اچھی طرح سمجھ چکی ہے اور آج کوئی چیز بڑی دیر تک آپ عوام کی نظروں سے چھپا نہیں سکتے۔لہٰذا ان چیزوں کو عوام کی مجبوری بنانے کی بجائے یا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بجائے اس کی صحیح تحقیقات کریں۔ اگر حکومت اپنے آپ کو بے گناہ اور ہمارے ادارے اس کا قصور وار نہیں سمجھتے تودوسری صورت میں پاکستان میں اگر بنوں میں، پشاور میں، سوات میں ،کرک میں،مردان ان علاقوں میں ایسے عنصر ، ایسے واقعات کو جگہ ملی یا ان کی حوصلہ افزائی ہوئی تو یہ واقعات بڑھنے لگیں گے۔اور مجھے وہ وقت یاد ہے جب پاکستان میں صرف چند سالوں میں ڈیڑھ سے دو لاکھ پاکستانیوں کی شہادتیں ہوئیں۔ بم دھماکوں کی وجہ سے پاکستانیوں کے لوتھڑے درختوں پر لٹکتے ہوئے نظر آئے۔پاکستان اس کا ایک دفعہ پھر متحمل نہیں ہو سکتا لہٰذا ہمارے ادارے، ہماری حکومت اور پاک فوج اور اس کے ادارے ساری باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، پاکستان کی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس پر اپنا قدم اٹھائیں۔
افغانستان اور ایران کی سرزمین بھارت پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتا آ رہا ہے اس کی طرف سے پاکستان سے بھاگے ہوئے ٹی ٹی پی کے لوگوں کو تربیت کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور رقوم بھی فراہم کی جاتی ہیں۔کل ہی نور والی محسود کی کال پکڑی گئی ہے جس میں اپنے کمانڈروں کو وہ پاکستان میں سکولوں ہسپتالوں اور دفاعی تنصیبات پر حملے کرنے کی ہدایت دے رہا ہے۔ حالیہ دنوں اقوام متحدہ کی طرف سے رپورٹ جاری کی گئی کہ افغانستان میں سب سے بڑا دہشت گرد گروپ ٹی ٹی پی ہے جو طالبان حکومت کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔افغانستان کے اندر سے طالبان حکومت ٹی ٹی پی اور بھارت مل کر پاکستان کے خلاف سازشیں رچا رہے ہیں جبکہ ایران کی سرزمین استعمال تو ہو رہی ہے لیکن اس میں ایرانی حکومت ملوث نہیں ہے لہذا افغانستان پاکستان کے لیے زیادہ خطرناک ہو چکا ہے۔اقوام متحدہ اسی پر اکتفا نہ کرے کہ اس نے افغانستان کے اندر سے پاکستان کے لیے خطرے کی نشاندہی کی ہے بلکہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر کوشش بھی کرے۔