ہمارے موجودہ نظام تعلیم کا بانی کون؟ 

 پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے۔ اسلام ہمارا نظریہ حیات ہے۔ اسلام نے علم کی اہمیت و افادیت پر جتنا زور دیا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ تعلیم کے مسئلے پر غور کرنے سے پہلے اصل دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ تعلیم کا جو نظام اس وقت ہم نے اپنے اوپر لاد رکھا ہے وہ کس نے، کب اورکیوں ہمارے ملک میں رائج کیا تھا؟ جو مقاصد اس نظام کے بانی کے تھے اگر وہی مقاصد آپ کے بھی پیش نظر ہیں تو سبحان اللہ اگر اس نظام کو رائج کرنے والے کے مقاصد آپ کے مقاصد سے مختلف تھے اورجس قسم کی نسل وہ تیار کرنا چاہتا تھا آپ اس کے بجائے کسی اور قسم کی قوم پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس طرز عمل کا آخر کیا جواز ہے کہ تعلیمی نظام کی ساری مشینری سر سے لے کر پائوں تک آپ وہی رکھتے ہیں جو میکالے نے سرکاری ملازم یا زیادہ درست لفظوں میں اپنے ذہنی غلام پیدا کرنے کے لئے بنائی تھی۔ موجودہ نظام تعلیم کا بانی لارڈ میکالے تھا اور اس نے جو اپنی تاریخی یادداشت ۱۸۳۵ء میں مقبوضہ ہندوستان کے گورنر جنرل کو پیش کی تھی اس میں اس نظام تعلیم کے تمام مقاصد پوری صفائی بلکہ ڈھٹائی سے کھول کھول کر بیان کردیے گئے تھے۔ اس کا سب سے بڑا مشن یہ تھا کہ ہندوستان کے باشندوں بالخصوص مسلمانوں کو اپنے سارے تہذیبی ورثے کے بارے میں شدید احساس کمتری کا شکار بناکر ان کے دلوں پر مغرب کی ہمہ گیر بالادستی کا سکہ بٹھا دیا جائے اور نئی نسل کو ہر ممکن طریقے سے یہ یقین کرلینے پر مجبور کردیا جائے کہ اگر دنیا میں ترقی اور سربلندی چاہتے ہو تو اپنی فکر، اپنے فلسفے، اپنی تہذیب، اپنی معاشرت اور اپنے سارے ماضی پر حقارت بھری نظر ڈال کر مغرب کے پیچھے پیچھے چلے آئو اور اپنی زندگی کا ہر راستہ اس کے نقوش قدم میں تلاش کرو۔ لارڈ میکالے کے مندرجہ ذیل الفاظ بطور خاص غور سے پڑھیے۔

 ’’مجھے نہ تو عربی سے کوئی واقفیت ہے نہ سنسکرت سے مگر ان کی حقیقی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لئے میں کچھ کرسکتا تھا اس میں کوئی کسر میں نے اٹھا نہیں رکھی… میں اس بات پر بھی تیار ہوں کہ مستشرقین جو اہمیت ان علوم کو دیتے ہیں وہی میں بھی دوں۔ ان حضرات میں مجھے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو اس حقیقت سے انکار کرے کہ یورپ کے کسی اچھے کتب خانے کی محض ایک الماری ہندوستان اور عرب کے سارے ادبی سرمایہ پر بھاری ہے۔‘‘ (میکالے کا نظریہ تعلیم، مترجم عبدالحمید صدیقی ص ۲۷۔ ۲۸۔ مطبوعہ روھیل کھنڈ لٹریری سوسائٹی کراچی)
 میکالے عربی زبان کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتا ہے۔
 ’’عربی اور سنسکرت کے حق میں ایک اور دلیل جو اس سے بھی کہیں زیادہ کمزور اور بودی ہے۔ یہ دی جاتی ہے کہ ان زبانوں میں چونکہ کروڑوں انسانوں کی مقدس کتابیں موجود ہیں۔ اس بنا پر یہ خصوصی امداد کے مستحق ہیں۔ سرکار انگریزی کا بلاشبہ یہ فرض ہے کہ وہ ہندوستان کے مذہبی معاملات میں نہ صرف روادار ہو بلکہ غیر جانبدار بھی ہو مگر کسی ایسے ادب کی جو مسلمہ طور پر بہت کم قدر و قیمت کا حامل ہے۔ محض اس وجہ سے حوصلہ افزائی کرتے چلے جانا کہ اس میں بعض اہم موضوعات پر انتہائی غلط باتیں موجود ہیں۔ میرے نزدیک ایک ایسی روش ہے جس کی تائید نہ عقل کرتی ہے نہ اخلاق اور نہ وہ غیر جانبداری جس کا قائم رکھنا ہم سب کا مقدس فرض ہے۔ ایک ایسی زبان جس کے بارے میں ہر شخص تسلیم کرتا ہے کہ اس کا دامن ہر قسم کی معلومات سے خالی ہے۔ کیا اس کے پڑھانے کا اس لئے التزام کیا جائے کہ وہ ہیبت ناک اوہام کو جنم دیتی ہے؟ کیا ہم جھوٹی تاریخ، غلط علم ہئیت اور غلط تاریخ محض اس لئے پڑھائیں کہ ان سے ایک باطل مذہب کی تائید ہوتی ہے؟ (ص ۶۶)
 پھر اپنی اس رپورٹ کے آخر میں نظام تعلیم بدلنے کی اصل غرض و غایت کو نہایت واشگاف الفاظ اس طرح بیان کرتا ہے۔
 ’’ہم فی الحال اپنے محدود ذرائع کے ساتھ سب لوگوں کی تعلیم کا بندوبست نہیں کرسکتے۔ ہمیں اس وقت بس ایک طبقہ پیدا کرنے کی سعی کرنی چاہئے جو ہمارے اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین ترجمانی کے فرائض سرانجام دے سکے جن پر ہم اس وقت حکمران ہیں۔ ایک ایسا طبقہ جو خون اور رنگ کے ا عتبار سے ہندوستانی ہو مگر ذوق، طرز فکر، اخلاق اور فہم و فراست کے نقطہ نظر سے انگریز پھر اس کام کی ذمہ داری اس طبقے پر چھوڑ دیں کہ وہ اس ملک کی بولیوں کو سنوارے، مغربی علوم سے سائنسی اصطلاحات لے کر ان زبانوں کو مالا مال کردے اور آہستہ آہستہ انہیں اس قابل بنائے کہ ان کے ذریعہ سے ملک کی آبادی کو تعلیم دی جاسکے۔‘‘ (صفحہ ۶۹)
 ان اقتباسات سے یہ بات کسی بھی درجے میں ڈھکی چھپی نہیں رہ جاتی کہ اس نظام تعلیم کے ذریعہ سے انگریزوں کا مقصد کیا تھا؟ اور وہ اس نظام تعلیم کے ذریعہ سے کس قسم کی نسل تیار کرنا چاہتے تھے؟
 لارڈ میکالے کے یہ اقتباسات کسی تبصرے کے محتاج نہیں ہیں۔ میکالے نے اپنی اس رپورٹ میں علوم مشرق کے خلاف جس اندھے تعصب اور بغض کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق کو بری طرح مسخ کیا ہے۔ اس پر ہمیں کچھ کہنا نہیں۔ مشرقی اور بالخصوص اسلام کے ساتھ یہ بغض تو انگریزوں کے ضمیر میں شامل ہے۔ ایک موروثی روگ کی طرح اس بے چارے کو بھی ورثے میں ملا تھا۔ لیکن ہمیں کہنا صرف یہ ہے کہ ان اقتباسات میں یہ حقیقت صاف پڑھی جاسکتی ہے کہ اس نظام تعلیم کی بنیادمشرق، مشرقی علوم، مشرقی مذاہب اور مشرقی تہذیب و معاشرت سے نفرت و عداوت پر رکھی گئی تھی اور اس نظام کے بانیوں کی تصریح کے مطابق اس کا مقصد ایسے کالے انگریز پیدا کرنا تھا جو زندگی کے ہر شعبے میں مغرب کی اندھی تقلید کو اپنا شعار بناکر زندگی کی آخری سانس تک انگریزوں کے غلام بنے رہیں اور کبھی ان کی کسی، ’’اسکیم پر صدائے احتجاج بلند نہ کریں‘‘ چنانچہ اس نظام تعلیم کے رگ و ریشہ میں مشرق‘ مشرقی علوم اور مشرقی تہذیب سے نفرت کے تصورات بری طرح سمائے ہوئے ہیں اور اس نظام تعلیم سے گزر کر جو ذہن تیار ہوتا ہے۔ وہ مغرب کے مقرر کئے ہوئے دائروں سے باہر نکلنے کی مطلق جرات نہیں رکھتا۔ مختصر یہ کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے نظام تعلیم سے ایسے افرادتیار ہوں جو کھلے ذہن کے ساتھ دنیا کاہر مفید علم و فن حاصل کریں۔ مغرب کی اندھی تقلید کرنے کی بجائے ان علوم و فنون میں اجتہادی بصیرت پیدا کریں تو ہمیں تمام جدید علوم کے نظام و نصاب کو از سر نو مدون کرنا ہوگا اور ان تمام علوم سے مادہ پرستانہ تصورات کو نکال کر ان میں مسلمانوں کے افکار مسلمان ذہنیت اور اسلامی طرز فکر کو سمونا پڑے گا۔ ا س کے بغیر ایک آزاد مسلمان قوم کی تشکیل مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ کام محنت طلب بھی ہے اور وقت طلب بھی۔ ہوسکتا ہے کہ اس نظام کو پوری طرح بدلنے میں سالہا سال لگ جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس انقلاب کے پورے ثمرات ہم اپنی زندگی میں نہ دیکھ سکیں لیکن قوم کی ذہنی تعمیر میں وقت لگنانا گزیر ہے۔ لارڈ میکالے نے جو بیج ۱۸۳۵ء میں بویا تھا وہ آج برگ بار لایا ہے ہم جو بیچ بوئیں گے وہ شاید اگلی صدی میں پھل لے کر آئے اگر محنت سے ڈر کر ہم نے یہ بیچ آج بھی نہ بویا تو ہمارے صحن چمن میں ہمیشہ پھولوں کی بجائے جھاڑ جھنکار ہی اگتے رہیں گے اور سو سال گزرنے پر ہماری آزادی کا قافلہ اسی منزل پر کھڑا رہے گا جہاں وہ ۱۹۴۷ء میں پہنچا تھا۔

ای پیپر دی نیشن