''وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے''

کیا بات ہے افتخار عارف کی ، آج دماغ کے ایک کونے میں ان کے افکار کے دیئے روشن ہوگئے!!

مٹی کی محبت میں ہم آ شفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
 یوم عاشور سے ایک روز قبل بابا کرمو سے ملاقات ہوئی تو بتایا کہ دنیا بھرمیں لوگ ہنس رہے ہیں کہ ہم کر کیا رہے ہیں؟ فیض آباد دھرنے کا شور دوہزار سترہ کا ابھی ختم نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نے اس پر سو موٹو لیا ہوا تھا کمیشن بیٹھا مگر رزلٹ صفر…!! اب ایک بار پھر15جولائی سے فیض آباد دھرنا شروع ہے۔ دھرنے سے راولپنڈی اسلام آباد ہی نہیں ہر شہری اسلام آباد ایکسپرس وے بند ہو جانے سے پریشان ہیں، خوار ہیں مریض اسپتالوں تک سرکاری ملازم دفاتر تک پہنچ نہیں پاتے۔دونوں شہروں کا نظام ٹھپ ہو چکا ہے اور انتظامی ادارے خاموش تماشائی ہیں۔کیوں انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ کوئی کچھ نہیں کرتے۔بابا کرمو نے کہا ہم اس ملک کے شہری ہیں جہاں گریڈ پانچ کے ملازمین کو فکر ہوتی ہے کہ کام پر نہ گیا تو نوکری سے نہ چلا جاؤں لہذا آندھی ، طوفان گرمی ، سردی وہ نوکری پر ہر صورت جاتا ہے تاکہ کھانے کو دو وقت کی روٹی اسے اور اس کے بچوں کو میسر رہے۔ بچے سکول جاتے رہیں۔ یہاں ایسی بھی شخصیات ہیں جن کی تنخوائیں مراعات سب سے زیادہ ہیں ان کے بجلی گیس فون کے بل نہیں، گاڑی پٹرول, علاج ڈرائیور،بنگلہ گھر کے نوکر چاکر ، فضائی سفر، سیکورٹی فری۔ایسے لوگ اداروں کے چیئرمین ،وزرا اور ججز شامل ہیں۔ سب سے زیادہ مزے ججز کے ہیں ان کو چار پانچ سال کی سروس کے بعد پنشن مراحات نوکر چاکرون کے ساتھ ملتی ہے۔دوبارہ جاب ملتی ہے۔کام یہ ہے کہ پانچ روز ہارن بجاتی گاڑی پر پولیس کی سیکورٹی میں افس آنا۔عدالت میں بیٹھ کر اطراف کا کیس سننا۔پھر سن کر ملکی قانون اور آئین کے مطابق فیصلہ لکھنا۔ مگر یہ اپنی من مانی سے مرضی کے فیصلے لکھتے ہیں۔ خود وکیل بن جاتے ہیں  کوئی تنخواہ کی انہیں فکر نہیں کسی باس کی انہیں  پرواہ نہیں اگر کیس سیاسی نوعیت کا ہے پھر فیصلہ قانون کے مطابق نہیں بیوی بچوں کی خواہش کے مطابق لکھیں گے۔ اگر بگڑے بچے ابا کے حضور کام کے دوران ریلف  لینے وکیل بن کرکھڑے ہوجاتے ہیں تو ابا حضور کی جرات نہیں ہوتی کہ بیٹے سے پوچھے کہ تم یہاں کیسے کھڑے ہو۔؟کچھ شرم کرو لوگ کیا کہیں گے کیاسوچیں گے۔ اس پر شرم بھی خود کرتے ہیں اور ڈر کے مارے نظریں جھکا کر ریلف بھی دے دیتے ہیں۔ بابا کرمو   پلیز انہیں کچھ مت کہو۔ جو ایسا کرتے ہیں۔ ان کے نام بتاؤ۔کہا کیوں بتاؤں کیا تم نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے ہیں۔ بابا کرمو نے پوچھا کہ کیا یہ سچ نہیں کہ یہاں ہر وکیل کی وکالت نہیں چلتی وکالت کچھ مخصوص وکلا کی چلتی ہی نہیں دوڑتی ہے۔ کلائنٹ سے ایسے وکلا فیس نہیں لیتے کیس کا ٹھیکہ کرتے ہیں۔ ججز کے نام کے پیسے پکڑتے ہیں۔ ان کو کبھی کبھی حصہ دے بھی دیتے ہیں۔ تقسیم کرتے وقت ترازو ٹھیک رکھتے ہیں۔ بے ایمانی نہیں کرتے۔ کہتے ہیں یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن ریٹائر ہونا ہے پھر فارن فیملی سمیت رہنا ہے۔ کہا بابا کرمو میں تو سمجھا تھا کہ یہ کہتے ہونگے ایک نہ ایک دن ہمہیں بھی مرنا ہے زمین کے نیچے جانا ہے بابا کرمو نے کہا انہیں اپنے جیسا مت سمجھو یہ زمین کے نیچے جانے کا سوچتے ہی نہیں زمین سے اوپر رہنے گھومنے پھرنے کا سوچتے ہیں۔ بیوی بچوں کے فیوچر کا سوچتے ہیں  تمہاری طرح آخرت کا مہنگائی کا نہیں یہ سوچتے۔ وہ کہتے ہیں ہمارے لیے دنیا میں ہی دودھ اور شہدکی نہریں ہیں۔یہ دنیا ہی جنت ہے۔ پوچھا آج آپ بغیر فون کے ہیں کہا کل مارکیٹ میں کھڑا تھا کہ گن پوانٹ پر مجھ سے میرا موبائل چھین لیا گیا۔ پوچھا کیا اس واقع کی رپورٹ تھانے میں درج کرائی تھی۔ کہا تھانے گیا تھا باہر آیا تو گاڑی چوری ہو گء۔ چلو اللہ اور دے گا جائیں مسجد میں نماز پڑھیں۔ کہا نماز پڑھی تھی باہر ایا تو جوتے چوری ہو گئے۔ بابا کرمو کی طرف حیرت سے دیکھنے لگا مگر وہ پرسکون تھے کہا اللہ کے نیک بندوں پر ہی تو مشکلیں ڈالتا ہے۔ کہا میری ہی نہیں ہر دوسرے فرد کی یہی کہانی ہے۔پوچھا ایسے برے حالات کیوں ہیں کہا جہاں فیصلے آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہونگے۔ وہاں ایسے ہی حالات ہوتے ہیں۔بابا کرموں نے کہا سپریم کورٹ کا لاجر بنچ اس لیے وجود میں آیا تھا کہ انہوں نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنچ کیا تھا۔ اب سپریم کورٹ میں یہ دیکھنا تھا پشاور  ہائی کورٹ نے ان  کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق کیا تھا یا نہیں۔ یہی اس لاجر بنچ نے دیکھ کر فیصلہ کرنا تھا۔سب جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن درست نہیں تھے جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت ان سے انتخابی نشان لے لیا تھا۔ ایسا کرنا الیکشن کمیشن کو اختیار تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں پی ٹی آئی کو وہ ریلف کیسے دے دیا گیا جو کسی نے مانگا ہی نہیں تھا۔ اس کام میں اس وقت بگاڑ پیدا ہوا جب کسی نے شوشا چھوڑا کہ اس وقت حکومت مجارٹی میں ہے لہذا موجودہ چیف جسٹس کے ساتھ دوسرے ججز کی سروس میں تین سال کی توسیع کا قانون لانے جا رہی ہے۔ اس وجہ سے  مخصوص نشستوں کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں دے کر اس راستے کو بلاک کرنے کی کوشش کی۔ یعنی پنجابی میں کہتے ہیں دوسروں کی دیوار گرا دو بے شک خود ہی نیچے آجاؤ۔ان ججز نے بھی وہی کچھ کیا ہے۔ اس کیس میں پی ٹی آئی پارٹی نہیں تھی اس نے مانگا ہی نہیں تھا۔بابا کرمو نے مسکرا کر بتایا کہ ایک بزرگ دوسرے کو بتا رہے تھے کہ بری امام کے مزار پر جو مانگو ملتا ہے۔یہ سن کر بابا کرمو نے کہا سپریم کورٹ جائیں جو نہیں بھی مانگیں گے وہاں وہ بھی ملتا ہے !! بابا کرمو سے پوچھا ججز نے یہ فیصلہ آئین اور قانون سے ہٹ کر کیوں دیا۔کہا آپ ہی کہتے تھے عدلیہ کو ازاد کرو اپنے فیصلے خود انہیں کرنے دو۔ اب دیکھ لیا ان کی آزادی کا رزلٹ۔ یہاں پر بھی امریکن جیوری کا نظام لایا جائے۔ جیوری جب وہاں فیصلہ کرنے پر بیٹھی  ہے تو اس کے رابطے گھر والوں عزیز و اقارب سب سے ختم کر دیے جاتے ہیں انہیں صرف کھانا پینا دیا جاتا ہے۔ جب تک فیصلہ نہیں کرتے کسی سے یہ مل نہیں سکتے کوئی فون پر بات کسی سے نہیںکر سکتے۔اس دوران کوئی ٹی وی ریڈیو دیکھ سن نہیں سکتے۔ آئندہ سے جب سیاسی فیصلوں کے لیے جو بنچ بنے ان کے ساتھ بھی امریکن جیوری جیسا سلوک کیا جائے پھر فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق  شفاف اور جلد آئیگا۔ اس کے لئے اسمبلی سے قانون  پاس کرائیں جو جج  فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں دیتا اس ججز کو فارغ کر دیا جائے تمام مراعات اور پنشن بند کر دی جائے۔ ایسے ہی ماضی کے ججز جھنوں قانون اور آئین کے مطابق فیصلے نہیں کئے تھے ان سب کو سزائیں دی جائیں۔ ان کی جائدادیں ضبط کی جائیں۔

ای پیپر دی نیشن