دنیا کی جغرافیائی کیفیت میں اب تک کے سب سے زرخیز اور محیّر العقول اور بلاشبہ سب سے بڑے میدان پنجاب کی تاریخ بھی اس کے میدان کی طرح زرخیز ہے۔
حضرت اقبال نے گرو نانک پر نظم نانک لکھ کر ان کی مواحدت پسندی کو خراج تحسین پیش کیا۔ ادھر سکھوں کے دسویں گرو کے گوبند سنگھ نے 1705 ء میں اور یہ عالمگیر کو فتح گڑھ اور دیگر جنگوں کے منظر نامے پہ ظفر نامہ لکھ بھیجا تھا۔
سکھوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے،پنجاب کی سرزمین نے دلیری اور خود مختاری میں بھی زرخیزی پائی۔ پنجاب کی سکھ تاریخ مہاراجہ رنجیت سنگھ، کھڑک سنگھ ،نہال سنگھ چاند کور،شیرا سنگھ دلا بھٹی اور بھگت سنگھ اسی تاریخی سفر کے پڑاو ہیں۔ اپنی اپنی جگہ یہ ظلم و استبداد اور استحصال کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہوئے۔
ایک طرف جب جنوبی ہندوستان میں 4 مئی 1799ء کو میسور میں قائم ٹیپو سلطان کی سلطنت خداداد پر اپنوں کی غداری نے شب خون مارا، اور سکوت سرنگا پٹم کے وقت جب انگریز میر صادق لنگ کی غداری کے بوجھ تلے سوئے ہوئے، وفائے ملت کی داستان ٹیپو سلطان شہید کی حرمت کا مْصّلہ کر رہے تھے، تو دوسری طرف شمالی ہندوستان میں مہاراجہ رنجیت سنگھ گجرانوالہ اور لاہور کو سکھوں کا پہلا پائے تخت بنا رہا تھا۔لاہور دربار پنجاب کی تاریخ ہے۔ 1799ء تا 1849ء کا یہ دور سکھ راج کا دور تھا۔
ہردیپ سنگھ نجر بھی اپنے وقت کا سردار اور اسی سفر کا ایک سنگ میل ہے۔ ہردیپ سنگھ بھارتی انٹیلیجنس ایجنسی "راء " کے ہاتھوں پنجاب میں سکھوں کی آزادی کی خالصہ تحریک کی جدوجہد میں قربان ہوا۔
نام نہاد خود کو سیکولر اسٹیٹ اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہنے والے ہندوستان میں ہندو مذہبی انتہا پسندی سرکاری مشینری کی مشیعت اور معیشت کے سائے میں پروان چڑھ رہی ہے۔ ہندتوا کے زیر اثر شدت پسندی مودی حکومت کی پالیسی ہے۔ بذات خود مودی انتہا پسند ہندو تحریک کی پیداوار ہے جو مہاتما گاندھی کے قاتل ہیں۔ بجرنگ دل سے لے کے سیوک دل اور راشٹریہ رائفل اور اب ہندوتو جنونی جتھوں اور گروہوں کے ہاتھوں مسلمان، سکھ عیسائی کی عزت اور املاک محفوظ نہیں ہے۔ زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوانا معمول ہے۔
سکھوں کے حقوق اور آزادی پر مبنی خالصہ تحریک 1980ء کی دہائی مشرقی پنجاب میں شروع ہوئی۔ یہ خالص ہندوستانی سکھوں کے جان مال تحفظ اور استحصال کو روکنے کی آزاد پرور تحریک تھی۔ کشمیر کی طرح اسے بھی دبانے کے لیے اس پر بننے والی جماعتوں اور جتھوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔
کر دو خالصہ تحریک کے رہنماء خالستان کی جدوجہد کرنے والے پنجابی سپوت ہردیپ سنگھ نجر کو بھی اسی دباؤ کا سامنا،جس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ چالیس سال کی عمر میں 2017ء میں کینیڈا پہنچے۔ انہوں نے وہاں سیاسی پناہ حاصل کی۔ کینیڈا میں سکھوں کی ایک خاص تعداد قومی دھارے میں تعمیر اور ترقی تیری خدمات انجام دے رہی ہے۔
یقینی طور پر سکھوں کی یہ ترقی انتہا پسند ہندوؤں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کو مسدود اور محروم کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ "چڑھدے پنجاب" میں سکھ ہندو خلیج روز بروز بڑھ رہی ہے۔اس خلیج کا ایک بہت بڑا شگاف 18 جون 2023 کو بڑا جب ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں وینکوور کے مضافاتی علاقے میں گردوارہ کے سامنے اپنے 11 سالہ بیٹی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔
رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس (آر ایم سی پی ) نے اسی وقت اس قتل میں ہندوستان کے ملوث ہونے کی تصدیق کر دی تھی۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو وزیراعظم کو موصول ہونے والی انٹیلیجنس رپورٹس اور تحقیقات کی روشنی میں انہوں نے ہندوستانی خفیہ ایجنسی راء کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بھارت اور کینیڈا کے سفارتی تعلقات شدید متاثر ہوئے۔ بھارت سے محض الزام تراشی کہتا رہا۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اب عالمی سیاسی منظر نامے پر مکمل جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں۔ 3 مئی 2024ء کو کینیڈا کی فائو آئن انٹیلیجنس ایجنسی نے زبردست کاروائی کرتے ہوئے،ہردیپ سنگھ کے قاتلوں میں کمل پریت سنگھ، کرن پریت سنگھ اور کرن برار کو گرفتار کر لیا۔
فرانسیسی خبر ادارے اے ایف پی نے بھی اپنی تحقیقات پر مبنی رپورٹ میں ہندوستانی خفیہ ایجنسی راء کے براہ راست ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے۔کینیڈا میں البرٹا کے پولیس سپریڈنٹ مندیپ موکر نے یہ کہا ہے کہ اس سے قبل دوول سنگھ کو کینیڈین شہر وینی پیک میں قتل کیا گیا یہ بھی خاصہ تحریک رہنما اور ارشدیپ سنگھ کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ قاتل مندیپ سنگھ فرسٹ ڈگری جیل کاٹ رہا ہے۔
ہندوستانی رہنما ایس جے شنکر، اجیت دوول، راج ناتھ مودی کی پالیسی کے اصل محرک ہیں۔
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ہندوستانی خفیہ ایجنسی راء کا کردار روشن من اظہر شمس ہے۔
ہندوستان میں انتہا پسندی سرکاری سطح پر رائج ہیں۔ اور اس شدت پسندی سے کوئی محفوظ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ اور اقوام عالم کو چاہیے کہ وہ ہندوستان پر اقلیتوں کے جان مال اور بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے نہ صرف دباؤ ڈالے بلکہ اس سلسلے میں عالمی سطح پر قانون سازی کی جائے۔ اور بننے والے قانون کو پوری روح اور قد و قامت کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ وگرنہ ہردیپ سنگھ نجر اور اس کے معصوم 11 سالہ بیٹے کی طرح یہ قتل انسان جاری رہے گا۔