خیبر پختونخواہ کا زرخیز اور مردم خیز صوابی تاریخ علاقہ ہے۔ ضلع ہزاروں سال پہلے ہزار قدیم تہذیبوں ، حملہ آوروں ، بھادر تاریخ بادشاہوں کی گزرگاہ اور مسکن رہا ہیں،۔ ہم صوابی کی مثالی ماضی اور تاریخ کی گہرائی میں مزید آگے نہیں جانا چاہتے۔ ضلع صوابی میں ٹوپی کے مقام پر واقع پرانے گائوں تربیلا کے مقام پر تربیلا ڈیم 1960ء میں تعمیر کیا گیا ہے۔ جس میں اہل ٹوپی ،تربیلا گائوں کے عوام اور معززین علاقہ نے اپنی ہزاروں کنال اراضی دیکر ملک ، قوم اور پھر اپنے ضلع اور علاقے کو معاشی اور صنعتی کامیابیوں اور آسودگیوں سے نوازاہے۔ 65،66برس گزرگئے۔ اہل ٹوپی اور ملحقہ دیہات کے لوگوں کو اپنی زمینوں کا معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔ یہ باتیں 20، 25سال پہلے اخبارات میں شہ سرخیوں کی شکل میں بار بار شائع ہوچکی ہیں مگردرجنوں بے حس مرکزی حکومتوں کی روایتی بے حسی پر ضلع صوابی اور اہل ٹوپی آج بھی نوحہ کناں ہیں۔ ضلع صوابی اور ٹوپی کے شہریوں کے اراضیوں پر بنی تربیلا ڈیم ، ہری پور، ایبٹ آباد، خطار، مانسہرہ، سریکوٹ کو آپس میں ملاتا ہیں۔ قدرتی حسن سے مالامال یہ علاقہ جنت نظیر سے کم نہیں ہے۔ جوقدرت کے عظیم فیاضیوں کا شاندار مظہر اور دوسری طرف دریائے سندھ کا ہزاروں ایکڑ پر پھیلا ہوا آبی بہائو، توانائی کی پیداوار، یعنی بجلی، زراعت، صنعت، اور ملکی معیشت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ تربیلا ڈیم کی مقامی بجلی کا مقامی لوگوں کو 0.0 %فائدہ نہیں پہنچا، تربیلا ڈیم میں مقامی افراد کو بجلی ، روزگار، اور معاشی فوائد سے یکسر اور جان بوجھ کر محروم رکھا گیا ہیں۔ اور تاحال مسلسل محروم رکھا جارہاہیں،ملکی آئین اور دستور کے مطابق کسی بھی علاقے کے میگا پراجیکٹ یعنی معدنی ذخائر، آبی ذخائر، یعنی ڈیم کے معاشی فوائد ، جیسے روزگار، بجلی پر سب سے پہلے مقامی افراد کا حق بنتا ہیں۔ تربیلا ڈیم (بمقام ٹوپی) کی بجلی پانی سے بنتی ہیںجس پر گیس، ڈیزل ، پٹرول یعنی فیول کا کوئی خرچہ نہیں آتا۔ لیکن مرکزی حکومت تربیلا ڈیم کے پانی سے بجلی تیل کے اضافی چارجز اور 14مختلف ظالمانہ ، بے انصافیوں پر مبنی پالیسیوں پر بنی صوبہ خیبر پختونخواہ اور ضلع صوابی پر تیل کے اضافی چارجز پر انتہائی مہنگی فروخت کرتی ہے۔ اہل صوابی کیساتھ یہ ظلم اور بے انصافی بند کی جائے۔ تربیلا ڈیم کی پانی سے بنی سستی بجلی کو اہل صوابی کے عوام پر 6 یا 7روپے یونٹ کے حساب سے 300یونٹ ہرگھرانے کو مفت فراہم کیا جائے۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے۔ کہ پاکستان بھر میں بہترین تمباکو ضلع صوابی کی زرخیز مٹی پیداکرتا ہے جس سے پاکستان بھر میں خصوصاً اور دنیا بھر میں عموماً بہترین سگریٹ اور دیگر بہترین صنعتی پراڈکٹ، پیداوارملکی زرمبادلہ ، میں اربوں روپے قومی خزانے کو دیتے ہیں۔ اس سے بھی ضلع صوابی کے عوام ، نوجوانوں کو روزگار، صحت، تعلیم کی مد میں کچھ نہیں ملتا۔ جوسراسر زیادتی، بے انصافی اور ظلم ہے۔ ضلع صوابی سے تمباکو کی مد میں اربوں روپے کا آمدن کا 95 %فی صد حصہ، پاکستان کی اشرافیہ، پنجاب ، کے صنعتکار، جاگیردار، سندھ کے وڈیرے، مالی ،معاشی، اور مراعاتی سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ضلع صوابی میں تربیلا ڈیم کی مقامی آبی، ہائیڈل پاور پراجیکٹ یا بجلی پورے پاکستان کے صنعتوں کو چلاتے، دفتروں، رہائشی آبادیوں، کاروباری مراکز کو روشن کررہے ہیں۔ جس سے ہماری معاشی، صنعتی ترقی کا پہیہ رواں دواں اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ضلع صوابی کے مقامی پہاڑوں کا قیمتی پتھر بھی پنجاب کے کارخانوں میں جاکر ، پنجاب اور پورے پاکستان کی صنعتی اور معاشی آسودگی ، استحکام اور بقا کی ضامن ہے۔ خیبر پختونخواہ میں واقع ضلع بونیر ، جو ضلع صوابی کیساتھ ملحقہ اور قریب ہے۔ بونیر کے پہاڑوں کا قیمتی پتھر، جس سے سنگ مرمر، اورصنعتی، رہائشی مکانات، دفاتر، اور تجارتی مقامات کی تعمیر کیلئے مزین ،پرکشش، انتہائی خوبصورت، پتھر تراش کربنایا جاتا ہیں۔صوابی کی پیداوار اور قدرت کی عظیم ، شاندار فیاضیوں کے کرشمے ہیں، شہرکے تمام ملحقہ مواضعات کے معدنی ذخائر، جیسے قیمتی پتھر پاکستان بھر میں ڈیموں کی تعمیر میں استعمال کیا جاتا ہیں۔ اس طرح ضلع صوابی واحد ضلع ہے۔ جو پاکستان بھر کے صنعتی ،معاشی ترقی میں کلیدی ، بنیادی اور اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ مگر اہل صوابی کو اشرافیہ، اور مرکزی حکومت معاشی امتیاز کا بطور خاص نشانہ بناتا ہے۔ ضلع صوابی کے معدنی ڈخائر، قیمتی پتھروں سے اہل صوابی محروم ہے۔ اور پنجاب اور پاکستان کی صنعتی ترقی کا سبب ہیں۔ معدنی ،زرعی اور آبی ڈخائر کی بنیاد پر ضلع صوابی پورے پاکستان کی معاشی بقا کی ضمانت ہے۔ 75سالوں سے ضلع صوابی کے عوام، مرکزی حکومت کے استحصال ، معاشی بے انصافیوں، کے نشانے پر ہے۔ اس وقت پورے ملک میں بجلی کے بحران کی وجہ سے صنعتیں بند ہیں۔ ضلع صوابی میں واقع گدون صنعتی زون جس میں تقریبا 500کارخانوں میں 40ہزار نوجوانوں اور افراد کو روزگار فراہم کیا گیا تھا۔ جس سے 40ہزار گھرانوں کے چولہے جلتے تھے۔ مہنگی ترین بجلی اور بے تحاشہ ظالمانہ ٹیکسوں کی وجہ سے گدون صنعتی زون ، قبرستان میں تبدیل ہوکر آج برباد پڑا ہے۔ کمر ٹوڑ مہنگائی، مہنگی ترین بجلی، غربت بے روزگاری، معاشی ابتری، اشرافیہ کی بے حسی، بے تحاشہ ناجائز مراعات نے عوام کو حکام سے نالاں اور بیزار کردیا ہیں۔ پاکستان کا ہر شہری نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔ اور ہر نوجوان کو معاشی ابتری نے گھیر کر پردیسی زندگی اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہیں۔ خلیجی اور مغربی ممالک نے اگر ایشیاء کو عموما اور پاکستان کو خصوصاً، ویزوں کے حصول میں آسانیاں/ نرمیاں فراہم کیں۔ توشاید پاکستان میں صرف قبریں رہ جائے گی۔ ضلع صوابی کو اپنے آئینی حقوق سے محرومی سے نکالنے کیلئے 30جون کو پورے ضلع صوابی میں شٹر ڈائون ، پہیہ جام،اور ہڑتال ہوگی۔ جس میں صوابی ایکشن کمیٹی، ضلع صوابی کے جملہ مختلف مواضعات کی سماجی تنظمیں، اور ''دحق آواز''کی تنظیم شامل ہوگی۔ اور ضلع صوابی کے لاکھوں عوام کے حقوق، بجلی کی رائیلٹی تمباکوسیس، صنعتی ، زرعی، معدنی، آبی حقوق کیلئے پورے ضلع صوابی کی سطح پر جلسے، سیمینار، اجتماعات پْرامن جلسے جلوس، اور پروگرامات منعقدکی جائیں گی۔ مرکزی حکومت سے مطالبہ ہے۔ کہ کسی بھی قسم کے ناخوشگوار واقعات بے امنی اور ملک اور خصوصاًضلع صوابی جس میں پہلے ہی مقامی انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے لاء اینڈ آرڈر یعنی امن وامان کی صورتحال ابتر اور بدترین ہے۔ سے نکالنے کیلئے ضلع صوابی کو فری لوڈشیڈنگ زون قرار دیا جائے۔ گدون صنعتی سٹیٹ کو بحال کیا جائے۔ تربیلا ڈیم ، صنعتی زون اور مختلف میگا پراجیکٹ میں مقامی افراد اور خاصکر بے روزگار، نوجوانوں کو باعزت روزگار فراہم کیا جائے۔ تمباکو سیس کے اربوں ریونیواور صوابی سے مختلف مدوں میں جمع شدہ ٹیکسوں کو صوابی کے عوام کی تعمیر وترقی ، صحت، تعلیم ، روزگار، صنعتی، زرعی ترقی پر خرچ کیا جائے۔ اگران سلگتے عوامی مطالبات پر غور نہ کیا گیا تو یہاںسے اٹھنے والی آگ سے ملک و قوم بچ نہیں سکے گی۔