پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی مشکل حالات میں نہ صرف ان کی بھرپور مدد کی ہے بلکہ گزشتہ کئی دھائیوں سے لاکھوں افغان باشندوں کو پناہ دے رکھی ہے لیکن حالیہ افغان عبوری انتظامیہ کے برسراقتدار آنے سے لے کر اب تک نہ صرف افغانستان کی پاکستان دشمنی پر مبنی پالیسی میں روزبروز شدت آتی جا رہی ہے بلکہ سکیورٹی فورسز پر حملوں کے بعد اب پاکستان کے دیگر ممالک میں سفارتخانے بھی محفوظ نہیں رہے اور پاکستان کے قومی پرچم کی توہین بھی کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں جرمنی کے شہرفرینکفرٹ میں پاکستانی قونصل خانے پر افغان شر پسندوں نے باقاعدہ منصوخہ بندی کے تحت حملہ کیا، منظر عام پر آنے والی ویڈیوز میں شر پسند افغان گینگ نے ایک جتھے کی صورت میں قونصلیٹ کا گھیرائو کیا اور پاکستان کے قومی پرچم کی توہین کی، اب تک سامنے آنے والے حقائق اور میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانیوں کا یہ حملہ جرمنی کی ناقص سکیورٹی اور نرمی کا نتیجہ ہے، سفارت خانے سے ایمرجنسی پولیس کو اطلاع دینے کے باوجود ایک گھنٹے سے زائد قونصلیٹ کا محاصرہ جاری رہا ،سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانی شرپسند عناصر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت وہاں اکٹھے ہوئے، شر پسندوں کا یہ اقدام نہ صرف پاکستان کی خودمختاری پر حملہ ہے بلکہ ویانا کنونشن 1963 کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ہے جس کے تحت میزبان حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کی سرزمین میں قائم کسی بھی غیر ملکی سفارت خانے کی حفاظت کا مناسب بندوبست کیا جانا ضروری ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے بھی فوری طور پر اپنے ردعمل دیا گیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان انتہا پسند گروہ کی جانب سے فرینکفرٹ، جرمنی میں اپنے قونصل خانے پر حملے اور جرمن حکام کی طرف سے قونصل مشن کے احاطے کی تقدس اور سلامتی کے تحفظ میں ناکامی کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ویانا کنونشن برائے قونصلر تعلقات، 1963 کے تحت میزبان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قونصلر احاطے کی تقدس کی حفاظت کرے اور سفارتکاروں کی سلامتی کو یقینی بنائے، واقعہ میں، فرینکفرٹ میں پاکستان کے قونصل خانے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا گیا، جس سے پاکستانی قونصل عملے کی جان کو خطرہ لاحق ہوا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم جرمن حکومت کو اپنے شدید احتجاج سے آگاہ کر رہے ہیں, ہم جرمن حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ ویانا کنونشنز کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور جرمنی میں پاکستانی سفارتی مشنز اور عملے کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ہم جرمن حکام پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ اس واقعہ میں ملوث افراد کو فوری طور پر گرفتار کریں اور ان کے خلاف کارروائی کریں اور سیکیورٹی کی خامیوں کے ذمہ دار افراد کو بھی جوابدہ ٹھہرائیں۔
اس واقعہ کے بعد کروڑوں پاکستانیوں کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جرمن حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور نرم رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے شر پسند عناصر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوئے جبکہ اس واقعے کے کئی گھنٹے بعد بھی وہاں کا،قانون اس قوت سے حرکت میں نہیں آیا۔ ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ درجنوں کی تعداد میں افغان نیشنل پاکستانی قونصلیٹ پر دھاوا بول رہے ہیں دیوار پھلانگ کر احاطے کے اندر گھسے اور پھر یہ بھی افسوس ناک منظر دیکھنے کو ملا کہ ان انتہا پسند لوگوں نے پول پر چڑھ کر پاکستانی پرچم کو پہلے کھینچ کر نیچے اتارا۔ وہ بھی اس انداز میں جیسے کوئی فاتح فوج کرتی ہے پھر اسے پیروں تلے روندا۔۔ نعرے لگائے آگ لگانے کی کوشش کی اور کافی دیر تک قونصلیٹ کا گھیراؤ کئے رکھا لیکن اس تمام تر صورت حال میں ویڈیو میں دیکھیں تو صرف ایک سے دو پولیس اہلکار وہاں دکھائی دے رہے ہیں۔ یعنی ایک آزاد اور خود مختار ملک پاکستان کی سالمیت کو شرپسند افراد کی جانب سے خطرے میں ڈالا گیا لیکن دوسری جانب جرمن قانون خاموش تماشائی بنا رہا۔ فرینکفرٹ واقعے کے بعد ایک سوال ذہنوں میں گونج رہا ہے کہ اگر پاکستان میں خدانخواستہ ایسا کچھ ہوجاتا تو کیا پھر بھی جرمن کا بھی یہی ردعمل ہوتا جو اس موقع پر دیکھنے میں آیا یقیناً نہیں بلکہ پوری یورپی یونین اکٹھی ہوجاتی اور پاکستان سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی باتیں کی جا رہی ہوتیں یا پاکستان پر مختلف پابندیاں عائد کر دی جاتیں۔ پاکستان میں قائم سفارتخانوں اور غیرملکی سفارتی عملے کی حفاظت کی بات کی جائے تو پاکستان اس معاملے میں ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر سفارتی کمیونٹی کی حفاظت کر رہا ہے۔ اسلام ا?باد میں ریڈ زون میں ایک وسیع و عریض رقبے پر ڈپلومیٹک انکلیو واقع ہے جس کی سیکیورٹی کے لئے پولیس کی ایک پوری ڈویڑن تعینات ہے جو اس ڈپلومیٹک انکلیو کے اندر ہر وقت موجود رہتی ہے۔ سینکڑوں اہلکار 24 گھنٹے سکیورٹی ڈیوٹی پر مامور رہتے ہیں جہاں بغیر اجازت پرندہ پر نہیں مار سکتا اور پاکستان ان سفارت خانوں کی سکیورٹی پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے،ڈپلومیٹک انکلیو کے چاروں اطراف سے قلعہ نما باؤنڈری وال ہے جس میں داخلے کے لئے درجن بھر انٹری گیٹ مختص ہیں جہاں غیر متعلقہ شخص یا افراد کا داخلہ تو دور کی بات اس کی دیوار کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا چاروں اطراف پولیس، ایف سی اور رینجرز کا حصار موجود رہتا ہے رات دن پولیس کی پٹرولنگ اور گشت رہتا ہے اگر کسی بھی سفارت خانے کو کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو سیکنڈز میں اس کو حل کیا جاتا ہے اور اسی ڈپلومیٹک انکلیو میں جرمن کا سفارت خانہ بھی موجود ہے جسے ہر قسم کی سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے اور پاکستان کے حالات سکیورٹی کے اعتبار سے جیسے بھی ہیں لیکن ان سفارت خانوں کی سکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا جب پاکستان ویانا کنونشن 1963 پر عملدرآمد کررہا ہے اور اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے تو پھر جرمنی جیسے ملک میں ایسا واقعہ ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ قونصلیٹ پر حملہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کی خودمختاری کامعاملہ ہے۔۔۔
دوسری جانب ابھی تک جرمنی کی طرف سے اس واقعہ پر کوئی ٹھوس وضاحت بھی سامنے نہیں آ سکی۔ پاکستانی شہریوں نے وفاقی وزیر داخلہ سے اپیل کی ہے کہ پاکستان میں رہائش پذیر افغانیوں کے حوالے سے سخت پالیسی اختیار کی جائے اور غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو جتنی جلدی ممکن ہوسکے ملک سے نکالا جائے۔ یہاں یہ امر انتہائی اہم ہونے کے ساتھ تشویش ناک بھی ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستانی سکیورٹی فورسز اور شہوریوں پر حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب افغان شرپسندوں سے بیرون ممالک میں سفارتخانے بھی محفوظ نہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ افغان شہریوں کے ذریعے بھارت شرپسندی کا مرتکب ہو رہا ہے اور پاکستان کے خلاف ہونے والے ایسے واقعات کے پیچھے بھارتی سازشی ذہن کارفرما ہے۔ پاکستان کو یہ معاملہ عالمی سطح پر نہ صرف اٹھانا چاہیئے بلکہ جرمن حکومت کے ساتھ بھی بھرپور احتجاج کیا جانا چاہئے۔