نو مئی کے واقعات پر میں نے پہلے بھی بہت لکھا ہے ایک مرتبہ پھر لکھ رہا ہوں کہ نو مئی کو دفاعی اداروں پر حملہ آور ہونے والے، اس کے لیے منصوبے بنانے والے، اس بغاوت کے لیے سہولت کاری کرنے والے قومی مجرم ہیں۔ قومی مجرموں کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے، ایسے شرپسندوں کو کیفرکردار تک پہنچانا تمام ریاستی اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ریاست پر چڑھائی کی جائے، دفاعی اداروں کو نشانہ بنایا جائے، شہداء کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا جائے، ان کی بے حرمتی کی جائے اور پھر ایسی کارروائیوں پر ڈھٹائی سے قائم ہوں، دفاعی اداروں پر الزام تراشی کریں، جھوٹی خبریں پھیلائیں، یہ سب چیزیں اور ملکی مسائل حل کرنے کا کام ایک ساتھ نہیں ہو سکتا۔ سیاسی حکومتیں ہمیشہ سے اپنی ناکامیوں کا ملبہ دفاعی اداروں پر ڈالتی آئی ہیں۔ خیبر پختونخوا کی موجودہ حکومت اس کی بڑی مثال ہے۔ میں نے سیاسی قیادت کی طرف سے عزم استحکام آپریشن یا مہم جو بھی کہیں اس کی مخالفت کرنے والوں کو اپنی فوجی جوانوں، پولیس کے جوانوں کی شہادتیں نظر نہیں آتیں۔ اسد قیصر عزم استحکام کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں وہ قوم کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ صوبے میں دہشتگردی کرنے والے کون ہیں، وہ بنوں واقعے کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی پر پابندی کی بات کرتے ہیں لیکن قوم کو یہ بھی تو بتائیں بنوں میں مظاہرین کے پاس اسلحہ کیوں تھا، کیا یہ بھی پرامن احتجاج تھا۔ کچھ تو خدا کا خوف کریں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کہتے ہیں کہ سیاسی مافیا چاہتا ہے کہ عزم استحکام کو متنازع بنایا جائے۔ یہ فوجی آپریشن نہیں بلکہ دہشتگردی کیخلاف مربوط مہم ہے۔ انتہائی سنجیدہ ایشوز کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے، عزم استحکام اس کی مثال ہے، عزم استحکام فوجی آپریشن نہیں بلکہ دہشتگردی کے خلاف ایک مربوط مہم ہے۔ کچھ عرصے میں مسلح افواج کے خلاف منظم پروپیگنڈے اور جھوٹی خبروں میں اضافہ ہوا ہے اس لئے ان معاملات پر بات چیت ضروری ہے۔ افغانستان سے چھ ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں جن میں سے پاکستان کے علاوہ باقی پانچ میں پاسپورٹ کے زریعے آمدورفت ہے، پاکستان کی سرحد کو شناختی کارڈ یا تذکیرہ کی بنیاد پر سوفٹ بارڈر کیوں رکھا جارہا ہے؟ حکومت نے ون ڈاکیومنٹ رجیم پاسپورٹ نافذ کیا تو اس کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا، ان مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ ہے ہمیں سمگلنگ کرنے دو۔ نو مئی کے منصوبہ سازوں کو جب تک کیفر کردار تک نہیں پہنچائیں گے تو ملک کے اندر انتشار اور فسطائیت مزید پھیلے گی، ان دہشتگردوں کے ساتھ ڈیجیٹل دہشتگرد تھے اور واقعے کے بعد پرانی تصویریں نکال کر پروپیگنڈا کیا گیا حالانکہ امن و امان فوج کی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس، انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنوں، صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری، پاکستان میں آزادی اظہار رائے کے نام پر طوفان بدتمیزی، دہشتگردی کے پیچھے بھارتی معاونت، سمگلنگ سمیت دیگر اہم معاملات پر حقائق قوم کے سامنے رکھنے کے بعد سیاسی قیادت کو چاہیے کہ ان حقائق پر دلائل سے بات کرے۔ عمر ایوب کی طرح غیر منطقی باتیں کرنے کے بجائے، اسد قیصر کی طرح غیر منطقی گفتگو کے بجائے حقائق پر بات کریں۔ قوم کو گمراہ نہ کریں، احتجاج کی سیاست نہ کریں، خودساختہ انقلابی بننے اور اس پر مہر لگانے کے لیے ملک و قوم کے مستقبل کو داؤ پر مت لگائیں۔ اداروں کی ذمہ داری ہے کسی بھی شخص نے قانون کو توڑا، حدود سے تجاوز کیا اسے منطقی انجام تک پہنچائیں سب کے ساتھ انصاف کریں۔ ریاستی مفاد کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے، انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں، اشاعتی و نشریاتی اداروں کو بھی چاہیے کہ ذمہ دارانہ رویوں کے فروغ کی مہم کا حصہ بنائیں، ڈیجیٹل دہشتگردی کو روکنے اور جھوٹی خبروں کے ذریعے سنسنی پھیلانے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ یہ کام سب نے مل کر کرنے ہیں۔
پاکستان کو اندرونی و بیرونی طور پر مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے۔ ان حالات میں سب سے بڑی ذمہ داری سیاسی قیادت کی ہے کہ وہ متحد ہو کر ملک میں سیاسی استحکام کے لیے کام کرے تاکہ اندرونی و بیرونی مسائل سے نمٹا جا سکے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا اور یہی وجہ ہے کہ مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اور ان کی سنگینی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگر پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں ہوں گے، سرحدوں پر کشیدگی ہو گی اور دنیا بھر میں مختلف ممالک سے پاکستان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے تو ان حالات میں ہماری سیاسی قیادت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی و ذاتی اختلافات بھلائے اور ملکی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے کام کرے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا اور مجھے ایسا ہونے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔ موجودہ سیاسی تناؤ میں کوئی بھی سیاسی جماعت ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہو گی اور جب تک سب اپنی اپنی انا کو ختم نہیں کریں گے اس وقت تک سیاسی بحران ختم نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں سیاسی قیادت کی سوچ ہی یہی ہے کہ سیاسی بحران قائم رہے تاکہ ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کا موقع ملتا رہے۔ سیاسی بحران ٹل گیا تو تعمیری کام ہو گا اور شاید تعمیری کام کوئی کرنا نہیں چاہتا۔ کسی کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ بیرونی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور مختلف افسوسناک واقعات پاکستان کی ساکھ کو کیسے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ دنوں فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصل خانے پر پتھراؤ اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کا افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے۔ ہو سکتا ہے سیاسی قیادت یا پھر پاکستانیوں کے لیے یہ معمولی واقعہ ہو لیکن میرے نزدیک یہ ایک نہایت خطرناک رجحان ہے اور اس واقعے کے کئی خطرناک پہلو ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اچانک کوئی گروہ اٹھے اور کسی بھی ملک میں کسی ملک کے قونصل خانے پر چڑھائی کر دے، قونصل خانے پر پتھراؤ کرے، حملہ کرے اور کسی بھی ملک کے پرچم کی بے حرمتی جیسے سنگین جرائم کا مرتکب ہو۔ ایسے واقعات کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کہا جاتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ چند شرپسند افغانیوں کا پکنک کا دل کرے اور وہ اچانک سے پاکستانی قونصل خانے پر چڑھ دوڑیں۔ شرپسند افغانیوں کے اس حملے سے پاکستانی قونصل خانے کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ جرمن حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ویانا کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے قونصلر احاطے کے تقدس کی حفاظت کرتے ہوئے پاکستانی سفارتی عملے کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ اس واقعے کی غیر جانبدار اور فوری تحقیقات کے بعد ذمہ داران کو نشان عبرت بنایا جائے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اس واقعے سے قونصل عملے کی جان کو خطرہ لاحق ہوا ہے، ہم جرمن حکومت کو اپنے شدید احتجاج سے آگاہ کر رہے ہیں۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ
جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں افغان شہریوں کی جانب سے پاکستانی قونصل خانے پر پتھراؤ اور پاکستانی پرچم اتارا گیا۔ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ افغان باشندوں نے پاکستانی پرچم جلانے کی کوشش بھی کی ہے۔ پاکستانی سفارتی حکام نے اس واقعے پر جرمن وزارت خارجہ سے احتجاج کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔جرمنی میں پاکستانی سفارتخانے کے مطابق جرمن حکام سے رابطے میں ہیں تاکہ آئندہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے کو یقینی بنایا جا سکے، پاکستانی کمیونٹی سے صبر اور پرسکون رہنے کی اپیل کرتے ہیں۔ غیر ملکی سفارتی تنصیبات کی سکیورٹی کی ذمہ داری جرمن حکومت کی ہے، اس معاملے پر بین الاقوامی برادری میں بھی سفارتی تنصیبات کی سکیورٹی کے معاملے پر تشویش پائی جاتی ہے۔
شرپسند، احسان فراموش، متعصب اور بھارتیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کے خلاف ایسی کارروائیاں کرنیوالے افغانیوں کو چاہیے کہ عقل سے کام لیں، پاکستان نے برسوں ان کا بوجھ اٹھایا ہے، پاکستان کی وہ سیاسی قیادت جو افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کہ مخالفت کر رہی تھی اس کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے۔ کیا انہیں ان شرپسندوں کے ساتھ اپنی ہمدردی پر نظر ثانی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بھارت اور پاکستان مخالف افغانیوں کا گٹھ جوڑ ہے۔ یہ بدتہذیب مختلف ممالک میں ہونے والے کرکٹ میچوں کے دوران بھی ایسی ہی پرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔ وہ انگلینڈ کے کرکٹ سٹیڈیمز ہوں یا پھر متحدہ عرب امارات کے میدان، افغانیوں کی پرتشدد کارروائیوں کی ساری دنیا گواہ ہے۔ کچھ تو شرم کریں۔ پاکستان کے خلاف ان ساری کارروائیوں میں بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے۔
آخر میں علامہ اقبال کا کلام
یہی مقصودِ فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی
اْخْوّت کی جہاں گیری، محبّت کی فراوانی
بْتانِ رنگ و خْوں کو توڑ کر مِلّت میں گْم ہو جا
نہ تْورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
میانِ شاخساراں صحبتِ مرغِ چمن کب تک!
ترے بازو میں ہے پروازِ شاہینِ قہستانی
گمان آبادِ ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا
بیاباں کی شبِ تاریک میں قِندیلِ رہبانی
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا، زورِ حیدر، فقرِ بْوذر، صِدقِ سلمانی
ہْوئے احرارِ مِلّت جادہ پیما کس تجمّل سے
تماشائی شگافِ در سے ہیں صدیوں کے زِندانی
ثباتِ زندگی ایمانِ مْحکم سے ہے دنیا میں
کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تْورانی
جب اس انگار خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ رْوح الامیں پیدا