فیصلہ کن اقدامات کی گھڑی

 جاوید اقبال بٹ مدینہ منورہ

حکومت  انتہائی فیصلہ کن اقدامات ملک مفاد میں اٹھانے کا تیہہ کر چکی ہے۔ جس سے ملکی معشیت  اور ملکی عدم استحکام  تخریب کاری اور ریاست دشمنی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔
یہ بات پتھر پر لکیر یے کہ عمران کی سیاست مکمل طور ختم شد ہے۔
اب ملک میں ایمرجنسی کا نفاد ہوگا
حکومت نے اپیل دائر کی مخصوص نشتوں کے لئے  کہ اس پر سٹے ملے
میں نے پہلے بھی تحریر کیا تھا کہ شہباز شریف پر اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کا بھی دباو ہے اور تیسرا میاں محمد نواز شریف وفاق میں حکومت لینے کی حامی نہیں تھے۔
اور اسٹبلشمنٹ  پی پی اور چھوٹی جماعتیں تحریک انصاف کو حکومت بنانے نہیں دینا چاہتی تھی
اس لئے میاں محمد نواز شریف  نے خاموش اور توجہ اپنی بیٹی وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی سرپرستی  کرتے ہوئے  پنجاب کی عوام کو قلیل مدت میں  بہت زیادہ سہولتیں مراعات  دیں  اور فوری منصوبہ ،شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبہ جاری ہوئے۔
100 دن کہ کامیاب پنجاب پالیسی  سے عوامی تائید حمایت بڑھی ہے عوام میں امید جاگی ھے  دوسری طرف مریم نواز شریف  بھی کچھ نیا کرنے کی جستجو اور عملی طور پر بہت سنجیدہ ہیں۔
پنجاب کی عوام  کہ لئے تو وزیر اعلی مریم نواز شریف امید کی کرن بن چکی ہیں اس کے علاوہ دوسرے صوبے کی عوام بھی برملا پنجاب پر توجہ اور عمل پر مطمن ہیں ل۔
اب اسوقت  2024 بجٹ منظور ہو چکا ہے آئی ایم ایف سے 07 ارب ڈالر کا معائدہ ہو چکا ہے۔
سپریم کورٹ سے تحریک انصاف کو ریلیف مل گیا ہے جو ان کی توقعات سے بھی زیادہ ہے جو نہیں مانگا وہ بن مانگے مل گیا ھے۔
اب حکومت نے اپیل کی ھے اگر سٹے نہیں ملتا اور کسی وجہ سے اتحادی جماعت پی پی اور  ایم کیو ایم ،ق لیگ ،یا دوسرے اتحادی تحریک انصاف پر پابندی لگانے پر  بھرپور ساتھ کی بجائے پوائنٹ سکورنگ کرتے ہیں  تو پھر سارہ دباو  وزیر اعظم شہباز شریف پر آئے گا
کیونکہ اسٹیبلشمنٹ قطعی طور پر عمران خان کو ریاست مخالف  پالیسی اور 09 مئی کہ واقعات کو انتہائی سنجیدہ لے رہی ہے یہ ریاست کی بقا کا مسئلہ ہے دنیا کی کوئی بھی ریاست فوج مخالف  اور فوجی تنصیات اور فوج پر حملوں کی قطعی اجازت نہیں دیتی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ حکومت کو دلیرانہ اور یقینی اقدامات کرنے ہیں۔
بغاوت کا مقدمہ عارف علوی، قاسم سوری اور عمران خان پر آرٹیکل 06 کا اطلاق کرنا ہے۔
یہ صرف  حکومت کر سکتی ھے اس سے قبل بھی مسلم لیگ ن کی حکومت سابق آمر صدر پرویز مشرف پر ارٹیکل 06 لگا چکی ھے اور ججز نے سزائے موت کی سزا بھی سنائی تھی۔میرا قیاس ہے کہ شہباز شریف حالات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں سب آپشن کھلے چھوڑے ہیں اور کوئی انتہائی اقدام اٹھانے سے بالکل گریزاں نہیں ھیں اور کوئی دباؤ بھی لینے کو تیار نہیں ھیں۔
ان حالات میں جو اسلام اباد اور کئی جگہوں سے پرسرار سی خبریں یا ماحول یا حالات کی سنگینی کے مدنظر  کچھ بھی فیصلے متوقع ھو سکتے ھیں۔ جن میں اسمبلی توڑ کر پہلے کی طرح لمبی  نگران حکومت کا قیام  پھر اس میں سپریم کورٹ کے ججز سے بھی مکمن ھے نیا حلف ھو اس قسم کی بھی ممکانات ھو سکتی ھیں  جو انکاری ھوں گئے انکی جگہ نئے جج بھی لائے جاسکتے ھیں۔ 
یہ بات یقینی ھے کہ عمران خان  کو کسی قسم کا ریلیف  این آر او ملنے کی کوئی رتی بھر توقع نہیں ھے۔۔۔ کیونکہ عمران خان نے  قوم کی یوتھ کو بہلایا بہکایا اور ریاست اور  ریاستی اداروں کے خلاف زہن سازی اور نفرت پھیلائی اور 09 مئی کا واقعہ ھوا۔
اب بھی سوشل میڈیا پر ریاست دشمنی اور اسٹبلشمنٹ کیخلاف نفرت پھیلائی جا رھی ھے اسلئے اب ریاست اس کو منطقی انجام پر لے جائے گی۔حالات لمحہ بہ لمحہ بدل رہے ہیں۔  سب آپشن وزیر اعظم میاں محمد شہباز کہ پاس ھیں اور وہ حکومت تحلیل سے لیکر ارٹیکل 6 کا نفاد ،ایمرجنسی اور تحریک انصاف کو شق نمبر 17 کہ تحت ملک دشمن جماعت قرار دے سکتے ہیں۔
اس سے پہلے اسی شق کے تحت  بابا رضوی کرین والے ٹی ایل پی پر  اپریل 2021 تحریک انصاف کی حکومت پابندی لگوا چکی ھے۔
اب حکومت اور ریاست وطن عزیز کو  مزید ریاستی دھشت گردی اور ریاست کیخلاف کسی قسم کی اجازت نہیں دے سکتی جس سے ملک میں بد امنی تخریب کاری پھیلے اور دنیا بھر سے سرمایہ کاری بھی رکے اور اندرون ملک معشیت امن و امان  صنعتوں کا پہپہ جام ھوکیونکہ ملک مزید عدم استحکام کا متحمل نہیں ھوسکتا  امید ھے حکومت دور اندیشی اور بہترین حکمت عملی سے بہتر سے بہتر ملک کے مفاد میں جو بھی بہتر فیصلہ ھوگا  اس پر عمل کر کہ 24 کروڑ عوام کی بہتری کہ حق میں فیصلہ ھوگا

ای پیپر دی نیشن