بائیڈن کی دستبرداری سے ڈیموکریٹس کو نیا موقع مل گیا

صدر جو بائیڈن کی امریکہ کے انتخابات میں حصہ لینے سے دستبرداری ڈیموکریٹک پارٹی کو دیر سے ہی سہی انتخابی مہم کو دوبارہ شروع کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ اس دوران ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے امیدوار کا انتخاب نہ ہونے پر ہفتوں تک غیر یقینی صورتحال کے متعلق خدشات پیدا ہوگئے تھے۔

رائے دہندگان کو امید ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی 2024 کے انتخابات کے لیے اپنی مہم کے آغاز سے مختلف تصویر پیش کرے گی۔ وہ 81 سالہ بائیڈن کے علاوہ کوئی سنجیدہ امیدوار پیش کرنے سے قاصر تھی۔ اس کے باوجود صدر کی عمر اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے تشویش پیدا ہوگئی تھی۔2020 کے صدارتی انتخابات سے قبل بائیڈن کے خلاف پارٹی کی پرائمری میں حصہ لینے والے سرمایہ کار اینڈریو ینگ نے کہا ہے کہ صدر نے قیادت کے ایک شاندار احساس کا مظاہرہ کیا۔ نومبر میں ٹرمپ اور ان کے نائب صدر جے ڈی وینس کا مقابلہ کرنے کے لیے بہترین امیدوار کا تعین کرنے کے حوالے سے انہوں نے ’’ ایکس‘‘ پر کہا کہ مقصد آسان ہونا چاہئے اور یہ مقصد جیتنا ہے۔کملا ہیرس 59 سال کی ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ممکنہ امیدواروں کی فہرست میں سرفہرست ہیں۔ وہ اب اب تک بنیادی طور پر موجودہ صدر کی حمایت پر انحصار کر رہی ہیں۔ اس پوزیشن کو وہ آنے والے دنوں میں مضبوط کر سکتی ہیں۔ امیدوار کی نامزدگی کا معاملہ حل ہونے پر ڈیموکریٹس اپنی مہم کی کوششوں کو ٹرمپ کو شکست دینے اور انہیں وائٹ ہاؤس واپس آنے سے روکنے پر مرکوز رکھیں گے۔لیکن ایسا کرنے میں ناکامی ڈیموکریٹس کو اگست میں شکاگو میں ہونے والے پارٹی کے جنرل کنونشن میں تقریباً 4000 مندوبین کے ووٹوں کے لیے ایک افراتفری اور ممکنہ طور پر نقصان دہ مقابلے کی طرف لے جائے گی۔ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے چیئرمین جمائم ہیریسن نے بائیڈن کے متبادل امیدوار کا انتخاب کرنے کے لیے ایک شفاف اور منظم عمل کا وعدہ کیا ہے۔ بائیڈن 1968 میں ڈیموکریٹ لنڈن جانسن کے بعد دوسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے سے گریز کرنے والے پہلے امریکی صدر ہیں۔

پراسیکیوٹر کملا ہیرس
بائیڈن کی انتخابی مہم گزشتہ ماہ ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی ویژن مباحثے کے دوران ان کی ناقص کارکردگی کے بعد زوال پذیر ہوگئی۔ اس مباحثے نے ان کی ذہنی صلاحیتوں اور صحت کے زوال کے خدشات کو بڑھا دیا۔ ٹرمپ جو 2024 کے انتخابات جیتنے کی صورت میں اپنی مدت کے اختتام پر بیاسی سال کے ہو جائیں گے اس وقت زیادہ مضبوط دکھائی دے رہے تھے۔ تاہم کم عمر امیدوار کے خلاف انتخاب لڑنا ان کی تقاریر اور پریس انٹرویوز پر لوگوں کی توجہ مبذول کرا سکتا ہے۔ ٹرمپ اکثر ناموں کو ملا دیتے ہیں اور اس سے ان کے بیانات متضاد معلوم ہوتے ہیں۔بائیڈن کے متبادل کی تلاش کے ایک حصے کے طور پر ڈیموکریٹک پارٹی میں اُن ابھرتی ہوئی شخصیات کے نام گردش کیے جا رہے ہیں جن کی عمریں ابھی ساٹھ سال سے کم ہیں۔ ان میں ریاستی گورنر جوش شاپیرو، گریچین وائٹمر اور گیون نیوزوم شامل ہیں۔وائٹمر نے جلدی سے اشارہ کیا کہ وہ انتخاب لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ نیوزوم نے کملا ہیرس کی امیدواری کی حمایت کردی لیکن دونوں گورنرز نے واضح طور پر اعلان نہیں کیا کہ وہ خود کو دوڑ سے باہر کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ نائب صدر کے عہدے کے لیے ملک کے وسط مغرب سے تعلق رکھنے والے اعتدال پسند امیدوار کے ساتھ ہیریس کی قیادت والی مہم خواتین ووٹرز کو ووٹنگ میں حصہ لینے پر راغب کرے گی۔ یہ صورت حال ٹرمپ کے خلاف ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے بہترین مواقع فراہم کرے گی۔ یہ ریپبلکن امیدوار کے ریکارڈ میں ایک کمزور نقطہ بنتا ہے۔کملا ہیریس ڈیموکریٹک پارٹی کو موقع دے سکتی ہیں کہ وہ انتخابی تصادم کو اپنے مطابق دوبارہ تیار کرے اور اسے دو مختلف ثقافتوں کے درمیان مقابلے میں بدل دے۔ ایک طرف ایک سابق پراسیکیوٹر ہے اور دوسری جانب ایک سزا یافتہ مجرم کی نمائندگی کر رہی ہے۔کیلیفورنیا کی پنوما یونیورسٹی میں سیاست کی پروفیسر سارہ سدھوانی نے کہا ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں بڑے پیمانے پر سائے میں رہنے کے بعد اٹارنی جنرل کملا ہیرس کے لیے واپسی کا وقت آگیا ہے۔ ڈیموکریٹک کمپنی پبلک پالیسی پولنگ کی طرف سے کرائے گئے ایک رائے عامہ کے سروے، جس کے نتائج جمعرات کو شائع ہوئے، میں یہ ظاہر کیا گیا کہ کملا ہیرس اگر کسی مناسب نائب ساتھی کو نامزد کریں گی تو تو وہ پنسلوانیا اور مشی گن میں ٹرمپ اور وانس کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔کملا بڑے فنڈز حاصل کرلیں گیاڈاہو میں بریگھم ینگ یونیورسٹی میں سیاسی امور کے ماہر ریان وائٹ نے کہا ہے کہ نامزدگی کے لیے ڈیموکریٹس کا مقابلہ ٹرمپ کو مہینوں تک میڈیا میں سرخیاں بنانے سے محروم کر کے پارٹی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ انہوں نے ایجنسی فرانس پریس کو بتایا کہ نئے ڈیموکریٹک امیدوار انتخابات سے قبل جانچ پڑتال اور میڈیا کے اہم اثر و رسوخ کی ایک تنگ کھڑکی سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ امیدوار کون ہوگا اور یہی وہ چیز ہے جو اپنی طرف متوجہ کرے گی۔کملا ہیرس کے علاوہ کوئی بھی امیدوار موجودہ انتظامیہ سے مکمل دوری پر ہوگا اور اس بنا پر بلند افراط زر، میکسیکو کے ساتھ سرحدی بحران اور افغانستان سے انخلا کی افراتفری کے پس منظر میں بائیڈن انتظامیہ پر کی جانے والی تنقید کے ایک بڑے حصے سے محفوظ رہے گا۔ ہیریس ممکنہ طور پر بائیڈن مہم کے لیے مالی معاونت کا پورا ذخیرہ حاصل کر سکے گیں۔ اس کا تخمینہ جولائی تک 94 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ یہ کسی دوسرے امیدوار کے لیے اس طرح ممکن نہیں ہوگا۔کسی بھی نئے امیدوار کو بائیڈن- ہیرس کی جوڑی کی حمایت کرنے والے یونائیٹڈ آٹو ورکرز یونین جیسے بڑے بااثر بلاکس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی۔ ریپبلکنز نے ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد امیدوار میں کسی بھی تاخیر سے تبدیلی کو عدالت میں چیلنج کرنے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ چیف الیکشن نے زور دے کر کہا ہے کہ پارٹی صدارتی دوڑ میں حصہ لینے کے لیے جو بھی نام منتخب کرے گی وہ پچاس ریاستوں میں بیلٹ لسٹوں میں شامل ہوگا۔ اس معاملہ میں کسی قانونی چیلنج کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن